بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں رضیہ بی بی سے ان کے شوہر نے تین سو روپے چھین لیے۔ ان کے شوہر کو بلیدہ کے کئی دیگر مردوں کی طرح نشے کی لت لگی ہوئی تھی۔
کپڑے سی کر گھر بار چلانے والی رضیہ بی بی کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ انہوں نے اسی وقت ٹھان لی کہ بہت ہو گیا اب یہ سب کچھ ختم ہو جانا چاہیے۔ رضیہ بی بی نے برقع پہنا اور بلیدہ کے ان مکانوں میں گئیں جہاں گھر کا کم از کم ایک مرد نشے کی لت میں مبتلا تھا۔
اب سوچیے بلوچستان کی روایت میں گھر کی خواتین گھروں سے اس وقت قدم باہر نکالتی ہیں جب کوئی اور راستہ نہ بچے۔
رضیہ بی بی نے خواتین کو اکٹھا کیا اور جب انہوں نے تجویز پیش کی کہ کیسے بلیدہ کو منشیات فروشوں سے پاک کیا جا سکتا ہے تو دیگر خواتین کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔
رضیہ بی بی نے کہا کہ منشیات کے اڈوں کو آگ لگا دی جائے۔ اور ان خواتین نے یہی کیا۔
ان خواتین سے اگر یہ پوچھا جائے کہ کس نے ان میں اتنی ہمت پیدا کی تو وہ یہ ہی شاید کہیں کہ ان کو نہیں معلوم کہ ان میں طاقت، توانائی اور جذبہ کیسے آیا لیکن جب وہ نکلیں تو ان کو روکنا ناممکن تھا۔
رضیہ بی بی کا ذکر اس لیے ضروری تھا کہ آج کل بلوچستان کے علاقے گوادر میں عوام اپنا بنیادی حقوق کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں اور اطلاعات کے مطابق درجنوں افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔ لیکن گذشتہ سال ’حق دو بلوچستان‘ مہم کے آغاز میں ایک خاتون کا بہت اہم کردار تھا۔
ماسی زینی ایک آواز لگاتی تھیں اور گوادر کی تمام خواتین ان کے ساتھ آجاتی تھی۔ گوادر کی تاریخ میں پہلی بار ہزاروں خواتین اپنے حق کے لیے گھروں سے باہر نکلیں۔
گذشتہ سال دسمبر کو پر امن احتجاج کے دوران پولیس نے دھرنے کا گھیراؤ کرنےکی کوشش کی۔
ماسی زینی کی ایک آواز پر تمام خواتین ان کے ساتھ آگئیں اور پولیس کو گھیراؤ نہیں کرنے دیا۔
سب سے پہلے ماسی زینی نے اپنے محلے کے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر گوادر پورٹ کے دروازے پر دھرنا دیا تھا۔
گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کے نام سے تحریک گذشتہ سال شروع کی گئی تھی۔ مولانا ہدایت الرحمٰن اور گوادر کی معروف سیاسی شخصیت حسین واڈیلا کی جانب سے گوادر شہر میں ماہی گیروں کے مسائل، سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں اور دیگر مسائل پر سخت موقف اختیار کرنے پر ’حق دو تحریک‘ کو بڑی پزیرائی ملی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نہ صرف لوگوں نے ’حق دو تحریک‘ کی احتجاجی ریلیوں میں بڑی تعداد میں شرکت کی تھی بلکہ طویل دھرنا بھی دیا گیا تھا۔
’حق دو تحریک‘ نے یہ دھرنا وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبد القدوس بزنجو کی قیادت میں ہونے والی مذاکرات میں مطالبات پر علمدرآمد کی یقین دہانی پر ختم کیا تھا۔
تاہم رواں سال ایک مرتبہ پھر 27 اکتوبر سے دھرنے کا آغاز کیا گیا تھا اور دوبارہ دھرنا شروع کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمٰن نے کہا تھا کہ مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
’حق دو تحریک‘ کا کہنا ہے کہ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ بلوچستان کی سمندری حدود میں اب بھی غیر قانونی ماہی گیری کا سلسلہ جاری ہے۔
اگرچہ ’حق دو تحریک‘ کے مطالبات کی فہرست طویل ہے لیکن اس کے بڑے مطالبات میں بلوچستان کی سمندری حدود سے غیرقانونی ماہی گیری کو روکنا، لاپتہ افراد کی بازیابی، ایران کے ساتھ مکران کے لوگوں کو سرحدی تجارت میں زیادہ سے زیادہ رعایتوں کی فراہمی، گوادر سمیت مکران سے منشیات کا خاتمہ، سکولوں اور ایسے مقامات سے سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں کا خاتمہ جہاں سے گھروں میں خواتین نظر آتی ہیں اور گوادر شہر کے بنیادی مسائل کا حل شامل ہیں۔
بلوچستان کی قبائلی روایات کے ہوتے ہوئے اگر اپنا حق لینے کے لیے رضیہ بی بی اور ماسی زینی کو نکلنا پڑتا ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حکومت اپنے فرائص انجام دینے میں ناکام ہو چکی ہے اور بنیادی حقوق کے لیے بھی بلوچستان کی عوام کو سڑکوں پر آنا پڑ رہا ہے۔
حکومت بلوچستان کو فوری طور پر سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ ’حق دو بلوچستان‘ عوام میں بڑھتی مایوسی کی آواز ہے جس کو یہ احساس ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں جو ترقیاتی کام ہو رہے ہیں ان کا ثمر بلوچستان کی عوام تک نہیں پہنچ رہا۔
بلوچستان کی عوام جس کا اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنا حق ہے اس سے یہ حق چھینا جا رہا ہے اور پولیس ان کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔
کیا اب تک حکومت بلوچستان کو اس بات کی سمجھ نہیں آ سکی کہ باتوں اور جھوٹے وعدوں سے کام نکل آنے والے زمانے اب نہیں رہے۔
حکومت کو سنجیدگی سے ’حق دو بلوچستان‘ کے مطالبات کو لینا ہو گا اور بلوچستان کی عوام کو اس بات کی یقین دہانی کرانی ہو گی کہ حکومت ان کے مطالبات پورے کرنے اور ان کو ان کے بنیادی حقوق دینے کے لیے تیار ہے۔
لیکن یہ یقین دہانی صرف عملی اقدامات اٹھانے سے ہی دی جا سکتی ہے نہ کہ جھوٹی تسلیوں سے۔