زینب عرف ماسی زینی وہ خاتون ہیں جنہوں نے سب سے پہلے گوادر بندرگاہ کے دروازے پر دھرنا دیتے ہوئے ایک ویڈیو بنوائی اور اس میں مولانا ہدایت الرحمٰن سے گوادر آنے اور مہم کی سربراہی کی درخواست کی۔
70 سالہ ماسی زینی نے تندور میں روٹیاں لگاتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ نہ صرف اس مہم میں شامل گوادر کی خواتین کی سربراہی کرتی ہیں بلکہ 15 نومبر سے جاری دھرنوں میں مظاہرین کے لیے رات کا کھانا بھی بناتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں ایک آواز لگاتی ہوں اور گوادر کی تمام خواتین میرے ساتھ آجاتی ہیں۔ گوادر کی تاریخ میں پہلی بار ہزاروں خواتین اپنے حق کے لیے گھروں سے باہر نکلی ہیں۔‘
’10 دسمبر کو ہم پر امن احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے دھرنے کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کی۔ تب میں نے تمام خواتین کو پکارا اور وہ میرے ساتھ آگئیں اور پولیس کو گھیراؤ نہیں کرنے دیا۔‘
بلوچستان میں جماعت اسلامی کی سرگرم کارکن سمیرا صدیق نے ’حق دو بلوچستان‘ مہم کی شروعات میں ماسی زینی کے اہم کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سب سے پہلے ماسی زینی نے اپنے محلے کے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر گوادر پورٹ کے دروازے پر دھرنا دیا۔
’انہوں نے ہی مولانا ہدایت الرحمن کو آواز دی جس کے بعد اس تحریک کا آغاز ہوا۔‘
مولانا ہدایت الرحمن بلوچستان میں جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل ہیں اور 15 نومبر سے جاری مہم کی سربراہی کر رہے ہیں۔
سمیرا صدیق نے اس رات کے احتجاج کی ایک وڈیو شیئر کی جس میں ماسی زینی مولانا ہدایت الرحمن کے لیے اپنا پیغام بھجوا رہی تھیں کہ ’ہمیں افسران سے نہیں ملنا، ان سے بات نہیں کرنی، مولانا صاحب یہاں آئیں ہمارا ساتھ دیں، ہماری آواز بلند کریں اور ہمارا پیغام آگے لے کر جائیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس رات احتجاج کے دوران جب ماسی زینی کی یہ وڈیو مولانا ہدایت الرحمن کے پاس پہنچی تو وہ کوئٹہ کی جانب جا رہے تھے۔
’انہوں نے ویڈیو دیکھ کر فوری طور پر گوادر آنے کا فیصلہ کیا اور اگلے ہی دن ’حق دو بلوچستان کو‘ تحریک وجود میں آئی۔‘
اس بات کی تصدیق کے لیے ہم نے مولانا ہدایت الرحمن کے پریس سیکریٹری ناصر علی خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی۔
ناصر علی خان نے بتایا کہ ’مولانا صاحب کوئٹہ جا رہے تھے مگر ماسی کی آواز پر انہوں نے فوراً واپسی کا سفر شروع کیا اور گوادر آ گئے۔‘
ہم ماسی زینی کا انٹرویو کرنے گوادر کی بندرگاہ کے متصل سی پیک ایکسپریس وے کے نزدیک محلے میں واقع ان کے گھر پہنچے۔
ہم نے دیکھا کہ وہ اپنے گھر کے صحن کے بیچ میں موجود ایک تندور میں روٹیاں لگا رہی تھیں جب کہ اطراف میں موجود دیگر مقامی خواتین مل کر ایک بڑے برتن میں کھانا بنا رہی تھیں۔
ماسی زینی نے کہا کہ وہ آج روٹی اور لوبیے کا سالن تیار کررہے ہیں۔ ’ہم روزانہ دھرنے کے لیے رات کا کھانا تیار کرتے ہیں۔
’میں نے دھرنے کے شرکا کے لیے رات کے کھانے کی ذمہ داری لی ہے۔ لوگ ہمیں اتنا سامان دے جاتے ہیں کہ کبھی کم نہیں پڑتا۔
’ہم دھرنے کے شرکا کے لیے کبھی مچھلی بناتے ہیں تو کبھی دال یا سبزی۔‘
ان کے مطابق وہ 15 نومبر سے اب تک روزانہ دھرنے میں رات کا کھانا بنا کے بھجواتی ہیں۔
دھرنے میں شامل مظاہرین ان کے گھر پرآ کر کھانا لے جاتے ہیں اور دھرنے کے مقام پر ایک کینٹین میں رکھوا دیتے ہیں جہاں سے شرکا باری باری کھانا لے جاتے ہیں۔
ماسی زینی نے گوادر کے مقامی افراد کی مشکلات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں گوادر کی خواتین اس لیے اپنے گھروں سے باہر نکلیں کیوں کہ وہ غربت، مجبوری اور بھوک کا شکار ہیں۔
’ہمارا سمندر ہم سے چھین لیا گیا ہے جو کہ ہمارا معاشی میدان ہے۔ اب ہزاروں کی تعداد میں سمندر میں ٹرالرز کی موجودگی جن کی وجہ سے سمندر میں مچھلی ختم ہوگئی ہے۔‘
انہوں نے کہا ’ہم ماہی گیر بہت تنگ ہوگئے ہیں۔ پہلے ہمارے مرد حضرات مچھلی پکڑنے ہر وقت جاسکتے تھے مگر اب ہمیں ٹائم ٹیبل دیا جاتا ہے۔
’ہمارے ماہی گیروں کو ہر وقت پوچھتے ہیں کہ کارڈ دکھاؤ۔ پوچھتے ہیں کہ کدھر سے آئے ہو، کدھر جارہے ہو۔ سمندر میں مارتے ہیں گالیاں دیتے ہیں اور اذیتیں دیتے ہیں۔‘
انہوں نے منشیات کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’منشیات نے ہماری نوجوان نسل برباد کردی ہے۔ گوادر میں بڑی تعداد نوجوانوں کی منشیات کی وجہ سے ہلاکت ہوئی ہے۔ یہ بھی تو کسی ماں کے بیٹے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ منشیات بند کرے مگر غریب کا روزگار بند نہ کرے۔‘
ماسی زینی نے گوادر اور مجموعی طور پر بلوچستان کے حکمرانوں سے ناامیدی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پارٹی والے ہم سے ووٹ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں نوکریاں دیں گے مگر جب ووٹ کے بعد ان سے ملنے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ صاحب سو رہے ہیں۔
’ہم مولانا کا اس لیے ساتھ دیتے ہیں کیوں کہ وہ ہمارے مسئلے سمجھتے ہیں، ہماری بات سنتے ہیں۔ انہوں نے ہماری آواز پوری دنیا میں پھیلائی۔ ہمیں مولانا کو پہلے ہی پہچاننا چاہیے تھا، ہم سے بہت بڑی غلطی ہوئی کہ ہم نے انہیں ووٹ نہیں دیا۔‘
انہوں نے دھرنا اور احتجاج جاری رکھنے پر کہا کہ ’ہمارے حق کے لیے مولانا ہدایت الرحمٰن میدان میں اکیلے نکلے ہیں۔ ہم ان کی ہر طرح سے سپورٹ کریں گے چاہے یہ دھرنا ایک سال کیوں نہ چلے۔‘
حکومت کا موقف
وزیر اعظم عمران خان نے 12 دسمبر کو ایک ٹویٹ میں اس احتجاج اور مطالبات کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے گوادر کے محنتی ماہی گیروں کے انتہائی جائز مطالبات کا نوٹس لیا ہے۔ ٹرالروں سے غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف سخت ایکشن لیں گے اور وزیراعلیٰ بلوچستان سے بھی بات کریں گے۔‘
I have taken notice of the very legitimate demands of the hardworking fishermen of Gwadar. Will be taking strong action against illegal fishing by trawlers & will also speak to CM Balochistan.
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) December 12, 2021
وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے وزیر اعظم کی جانب سے گوادر مہم کے مطالبات کا نوٹس لینے کا خیر مقدم کیا اور کہا مطالبات کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی یقین دہانی خوش آئند ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گوادرمہم کے مطالبات انسانی حقوق کے تحفظ پر مبنی ہیں- مطالبات پہلے ہی سے موجودہ حکومت کی پالیسی میں شامل ہیں۔
انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ صوبائی حکومت اپنی پالیسی اور گوادر مہم کے مطالبات کے تحت بیشتر اقدامات پر عملدرآمد کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں آنے والے مطالبات پر تیزی سے پیش رفت جاری ہے، متعلقہ صوبائی محکمے غیر قانونی ماہی گیری اور ٹرالنگ کی روک تھام یقینی بنا رہے ہی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ غیر ضروری چیک پوسٹوں کو ختم کر دیا گیا ہے اور سرحدی تجارت کا آغاز اور ٹوکن سسٹم کو ختم کردیا گیا ہے-
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’گوادر میں شراب خانوں کے لائسنس منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ محکمہ پی ایچ ای کو گوادر شہر میں پانی کے مسائل کے فوری حل کے لیے فنڈز کا اجرا کیا گیا ہے۔
’بجلی سمیت بعض دیگر مطالبات کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت سرحدی تجارت کے فروغ اور بارڈر مارکیٹوں کے منصوبے کی جلد تکمیل یقینی بنائیں گی۔
’گوادر مہم کے مطالبات پر پیشرفت کے حوالے سے وزیراعظم کو مفصل رپورٹ پیش کریں گے۔‘
بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا لانگو کا کہنا ہے کہ ’گوادر دھرنے کے16 مطالبات حکومت نے پورے کیے۔ تین مطالبات وفاقی حکومت کے ہیں جو وہ پورے کرے گی۔‘