پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج (بروز پیر) ہونے جا رہا ہے، جس کے ایجنڈے کے مطابق اس میں وزیراعلیٰ کا اراکین اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا شامل نہیں، تاہم دوران اجلاس صوبائی حکومت کے مطالبے پر سپیکر ایوان کی اکثریتی رائے سے اچانک وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کی اجازت دے سکتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے آج کے اجلاس میں اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اجلاس کی صدارت سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کریں گے۔ ایجنڈے کے مطابق اجلاس میں اراکین اسمبلی کے توجہ دلاؤ نوٹسز اور تحاریک پیش ہوں گی جبکہ دو بل ایوان میں متعارف کروائے جائیں گے، جن میں سے ایک بل کی منظوری بھی ایوان سے لی جائے گی۔
آج کے اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے اعتماد کا ووٹ لینے یا نہ لینے کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا مگر اسمبلی رولز آف بزنس کے مطابق حکومت (وزیراعلیٰ)کے پاس آپشن موجود ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اسی سیشن میں اچانک اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں۔
تاہم اچانک اعتماد کا ووٹ لینے پر وزیراعلیٰ پنجاب کو مطلوبہ تعداد کی حمایت روکنے کے لیے وفاقی حکمران اتحاد بھی متحرک ہے۔
اس معاملے پر پنجاب اسمبلی کے اجلاس سے قبل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کااجلاس بلایا گیا، جس میں صوبائی حکومت کا مقابلہ کرنے کی ہر آئینی آپشن پر غور کیا گیا ہے۔
اس اجلاس کی صدارت وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور وزیر ریلوے و ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے کی۔ پارٹی قیادت نے مسلم لیگ ن کے اراکین صوبائی اسمبلی کو لاہور میں رہنے کی ہدایت کر دی۔
نمبر گیم؟
اگر ایوان میں نمبر گیم کی بات کریں تو اس وقت ظاہری طور پر وزیراعلیٰ پنجاب کو 190 جبکہ پنجاب میں پی ڈی ایم کو 179 اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔
جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر اعتماد کا ووٹ لیا تو وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کو 25 سے 30 پی ٹی آئی اراکین کی حمایت نہیں ملے گی مگر ابھی بظاہر ایسی کوئی صورت حال دکھائی نہیں دی، لہذا اعتماد کا ووٹ لینے تک اس کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
دوسری جانب گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کہہ چکے ہیں کہ اگر گورنر کی ہدایت پر چوہدری پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا تو لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیس کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے کیونکہ آئینی طور پر وزیراعلیٰ پنجاب گورنر کی ایڈوائس پر اعتماد کا ووٹ لینے کے پابند ہیں اور اس کے لیے انہیں 186 اراکین کی حمایت ظاہر کرنا ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں وزیراعلیٰ پنجاب کو گورنر کی جانب سے ہٹائے جانے کا نوٹیفکیشن معطل کر کے بحال کرتے ہوئے تحریری یقین دہانی جمع کروائی تھی کہ وہ 11 جنوری تک اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔
وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے اعتماد کا ووٹ لینے کے معاملے پر لاہور ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت 11 جنوری کو ہوگی اور تحریک انصاف نے اسمبلیوں کی تحلیل اور اعتماد کا ووٹ لینے کا معاملہ عدالتی فیصلہ سے مشروط کیا ہے۔
اعتماد کا ووٹ لے کر اسمبلیاں تحلیل کرنے یا نہ کرنے سے متعلق بھی تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کی منقسم رائے سامنے آچکی ہے۔
چند روز قبل مسلم لیگ ن کی جانب سے پنجاب میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف جمع کروائی گئی عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی گئی تھی۔
مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری کے بقول پارٹی نے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے اور عدالتی فیصلے تک فوکس کرنے کے لیے یہ تحریک واپس لی تھی جو بعد میں بھی جمع ہوسکتی ہے۔