کیا پی ڈی ایم پنجاب اسمبلی کو ٹوٹنے سے بچا پائے گی؟

پی ٹی آئی پراعتماد ہے کہ آئندہ چند روز میں پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لے کر پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں گے جس کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی بھی تحلیل کر دی جائے گی۔

پنجاب اسمبلی میں 14 جون 2022 کو بجٹ اجلاس کے دوران ذرائع ابلاغ کے نمائندے ایوان کے باہر موجود ہیں (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

 

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ پر نئے انتخابات کے انعقاد کے لیے دباؤ بڑھانے کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں توڑنے کے مسلسل اعلانات کے باوجود آئینی، قانونی اور سیاسی وجوہات کی وجہ سے تاحال ایسا نہیں ہو پایا۔

اسی وجہ سے کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ کم ازکم نئے انتخابات مستقبل قریب میں ہوتے دکھائی نہیں دیتے جبکہ پی ٹی آئی پراعتماد ہے کہ آئندہ چند روز میں پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لے کر پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں گے جس کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی بھی تحلیل کردی جائے گی۔ 

پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شفقت محمود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’صورتحال اتنی پیچیدہ نہیں ہے جتنا اسے بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ہم انتخابات چاہتے ہیں جس کی وجہ سے پی ٹی آئی نے فیصلہ کیا کہ پنجاب اور کے پی اسسمبلی توڑ دی جائے لیکن آئینی و قانونی وجوہات کی وجہ سے ایسا نہیں ہو پایا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پرویز الٰہی 11 جنوری سے پہلے اعتماد کا ووٹ لیں اور اس کی کامیابی کے بعد پنجاب اسمبلی توڑ دی جائے۔ اس معاملے پر پرویزالٰہی اور پی ٹی آئی ایک پیج پر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہو سکتا ہے اگلے آٹھ سے دس دن میں پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لے لیں اور اس کے بعد اسمبلی تحلیل کر دی جائے۔‘

شفقت محمود نے  پی ڈی ایم سے کسی بھی طرح کے رابطوں کی تردید کی۔ 

اسمبلیوں کو تحلیل سے روکنے کے لیے ہی پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی  اور پی ڈی ایم نے وزیر اعلٰی پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی اور ساتھ ہی گورنر پنجاب نے پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا بھی کہہ دیا۔

دو روز بعد گورنر نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر ڈی نوٹیفائی کر دیا اور مسلم لیگ ق نے گورنر کے نوٹفیکیشن کو عدالت میں چیلنج کر دیا۔

لاہور ہائی کورٹ نے 23 دسمبر کو گورنر بلیغ الرحمان کے ڈی نوٹیفکیشن آرڈر کو معطل کر دیا تھا اور چوہدری پرویز الٰہی اور ان کی کابینہ کو اس یقین دہانی پر بحال کر دیا تھا کہ وہ 11 جنوری تک صوبائی اسمبلی کو تحلیل نہیں کریں گے۔ 

لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ مسلم لیگ ن کو پسند نہیں آیا اوروفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے ہمراہ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا‘ اور سپریم کورٹ سے فیصلے پر نظرثانی کرنے اور از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ 

آگے ہو گا کیا؟ 

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری سے جب بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’پلان بی کوئی نہیں ہے پہلے پلان اے پر عملدرآمد تو ہو جائے۔ اور پلان اے آئینی تھا اور عدالتیں اسے  نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہم نے پرویز الٰہی کو اور حکومت کو تیاری کا وقت دے دیا ہے۔  اعتماد کا ووٹ تو پرویز الٰہی نے لینا ہی لینا ہے اور وہ ووٹ لے کر اسمبلی توڑ دیں تو توڑ دیں اس کے بعد ہی الیکشن لڑیں گے۔‘

بات چوہدری پرویز الٰہی کے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہے جس کے بعد اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی لیکن کیا چوہدری پرویز الٰہی ایسا چاہتے ہیں؟ دیکھا جائے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے چند روز قبل اپنے ایک نجی نیوز چینل کو انٹرویو میں کہا تھا کہ جب وہ وزیر اعلٰی بنے تو اس کے دو تین روز بعد ہی چئیرمین تحریک انصاف عمران خان نے انہیں کہا تھا کہ وہ چند روز میں اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے،  لیکن اس کے ساتھ ہی اسی انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں ان کی اس بات سے ایک جھٹکا لگا خاص طور پر ملک کے لیے۔ ان کا کہنا تھا کہ معیشیت پہلے ہی ڈوبی ہوئی ہے اسمبلیاں ٹوٹنے سے سٹاک ایکسچینج بھی نیچے آئے گی بہت سے اثرات ہوں گے۔

چوہدری پرویز الٰہی نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ عمران خان کی جگہ ہوتے تو وہ دیکھتے کہ عوام کے لیے کیا بہتر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار نے چار سال میں صوبہ پنجاب کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں موقع ملتا تو وہ یہ حکومت جاری رکھتے اور آخر کیوں وہ حکومت چھوڑتے۔ ان کا کہنا تھا کہ مینڈیٹ عمران خان نے لیا تھا، ہم تو اتحادی تھے ہمیں تو بقول فواد چوہدری اوقات میں رکھا ہے۔

چوہدری پرویز الٰہی کے اس انٹرویو میں انہوں نے ایسی کئی باتیں کیں جن سے ظاہر ہوا کہ وہ پی ٹی آئی سے اتحاد میں زیادہ خوش نہیں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور ق لیگ کے 99 فیصد لوگ یہ چاہتے تھے کہ اسمبلی نہ توڑی جائے۔  

اس حوالے سے عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ’اس میں تو کوئی شک ہی نہیں پرویز الٰہی کھل کر کہہ چکے ہیں کہ وہ مارچ تک تو کم از کم حکومت کو چلانا چاہتے ہیں اور تو اور وہ تو آنے والا بجٹ بھی پیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ ان کی سنی نہیں جاتی۔ دراصل وہ ایک آدھا انٹرویو ایسا دے کر عمران خان پر دباؤ ڈالتے ہیں کیونکہ وہ ان کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات چیت کر رہے ہیں۔‘

عظمیٰ نے بتایا کہ چوہدری پرویز الٰہی ان سے 45 سیٹیں مانگ رہے ہیں اور اسی بات پر ان دنوں اتحادیوں کے پھڈے زیادہ ہیں۔  

مسلم لیگ ن کے ہی ایک رکن نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ’مسلم لیگ ن کے چوہدری شجاعت کے ساتھ مسلسل رابطے ہیں۔ اب چوہدی شجاعت پرویز الٰہی سے بات کرتے ہیں یا نہیں کرتے وہ ان کی سنتے ہیں یا نہیں سنتے یہ ان کا درد سر ہے۔ لیکن چوہدری شجاعت ہمارے ساتھ ہر معاملے پر آن بورڈ ہیں۔ مذکورہ رکن نے یہ بھی بتایا کہ سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ اگر ق لیگ ن لیگ کے ساتھ الحاق کرتی ہے تو وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سادہ سی بات ہے کہ بے شک چوہدری پرویز الٰہی اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ ن لیگ کے ساتھ الحاق نہیں کریں گے لیکن یہ منحصر ہے اسٹیبلشمنٹ پر۔ وہ پرویز الٰہی کو کہیں گے تو وہ آجائیں گے ابھی وہ نہیں کہہ رہے تو وہ پی ٹی آئی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔‘

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کے حوالے سے عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے تیاری تو ہو گئی تھی لیکن ابھی مجھ تک کوئی خبر نہیں آئی کہ اس میں مزید کیا پیش رفت ہوئی ہے البتہ فیصلہ تو یہی ہوا تھا کہ سپریم کورٹ جانا ہے لیکن کب جانا ہے یہ دیکھنے کی بات ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا اس حوالے سے موقف بالکل واضح ہے کہ اسمبلیاں اگست 2023 میں تحلیل ہوں گی اور اکتوبر میں انتخابات ہوںگے البتہ پی ٹی آئی اس کے خلاف کوشش کر رہی ہے اب دیکھتے ہیں کہ وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ اسمبلیاں اس سے پہلے نہیں ٹوٹیں گی۔‘

دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ڈی ایم فی الحال تو کچھ نہیں کرنے جا رہی البتہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں ہی دائر کریں گے۔‘

اسی حوالے سے پی ڈی ایم کے ایک سینئیر رہنما نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’اگر ہماری کسی بے وقوفی کی وجہ سے پی ٹی آئی کو فیس سیونگ ملتی ہے تو وہ کیوں نہ لیں؟ دراصل مسلم لیگ نواز کو یہ قدم اٹھانے سے پہلے اپنی قانونی مشاورت کو وسیع کرنا چاہیے تھا۔ مسئلہ ہی یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کسی کو قانونی مشاورت میں شامل ہی نہیں کرتی۔ دیگر جماعتوں  کے پاس بڑے اچھے اچھے لوگ ہیں جو آئینی سمجھ بوجھ  رکھتے ہیں انہیں شامل کرنا چاہیے تھا جو نہیں کیا گیا۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ن لیگ کی کیا سوچ ہے۔‘  

ان کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ ہم اس مسئلے کو سیاسی طور پر دیکھتے رہے ہیں ہم نے اسے قانونی طور پر دیکھا ہی نہیں ہے۔ ن لیگ کو سب کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا انہوں نے جلد بازی کی اور کچھ اہم چیزیں رہ گئیں ہیں جو ہم نہیں کر پائے۔ بنیاد تو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹس ہی تھا جس کے بعد معاملہ عدالت میں چلا گیا جہاں سے ہمیں کوئی ریلیف نہیں ملا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اس ڈی نوٹیفائی نوٹس میں ہی کوئی ایسی چیزیں رہ گئیں جو ضروری تھی اور وہ ہم نہیں کر پائے۔‘  

’حمزہ شہباز کو بھی پاکستان واپس بلایا گیا ہے۔ 11 جنوری کو عدالت گورنر کے نوٹفیکیشن کی قانونی حیثیت کا جائزہ لے گی اور فیصلہ دے گی جس کے بعد پنجاب کے حوالے سے سیاسی صورتحال مزید واضح ہو گی۔ حمزہ شہباز کو بھی اسی لیے بلایا گیا کیونکہ اگر پرویز الیٰہی اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام ہوتے ہیں تو حمزہ کو پنجاب کا نیا وزیر اعلٰی نامزد کیے جانے کی بازگشت ہے۔‘  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی ڈی ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے کہ پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لیں ہم ہی ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد دوبارہ پیش کر سکتے ہیں۔‘

حمزہ شہباز کو دوبارہ وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد کرنے کے حوالے سے مذکورہ رہنما کا کہنا تھا ’اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ن لیگ اکثریتی پارٹی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کی پارٹی تو پہلے ہی دونوں بھائیوں سے آگے کوئی چیز نکلنے نہیں دیتی تو اگر کسی اور کو وزیر اعلیٰ بنائیں گے تواس سلسلے میں وہ اس خوف کا شکار ہیں کہ ان کی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ وہ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے گھر اور خاندان کے لوگ متفق رہ جائیں۔ ان کا ایسا ایک تجربہ پہلے ناکام ہوا جب انہوں نے غلام حیدر وائیں کو لگایا جس کے بعد چوہدری برادران ان سے ناراض ہو گئے۔‘

پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ نے مزید کہا کہ حسن مرتضیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد تو تھا کہ ہم وقت لیں اور اسمبلی تحلیل نہ ہو اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ یہ مقصد ہم نے حاصل کرلیا لیکن  عوام میں یہ تاثر گیا کہ ہم حکومت بدلنے جا رہے ہیں۔ لوگ یہ بات کر رہے تھے کہ نیا وزیر اعلیٰ کون بن رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے لیکن اس کا فائدہ عمران خان کو ہو گیا۔‘

  عمران خان پی ڈی ایم کو نئے انتخابات پر مجبور کرنے کے لیے اپنے پارٹی رہنماؤں اور اپنی سیاسی، قانونی اور معاشی ٹیموں سے مسلسل مشاورت کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل تین جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق (شجاعت) بھی پنجاب اسمبلی کو بچانے کے لیے مختلف منصوبوں پر غور کے لیے مسلسل مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جنوری کے مہینے میں ہی پنجاب اسمبلی کی قسمت کا فیصلہ متوقع ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست