پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے عہدے میں ایک عجب سی کشش ہے کہ اسے حاصل کرنے کے خواہشمند بہت ہوتے ہیں اور جب کوئی اس عہدے پر فائز ہو جائے تو خوشی سے اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ چند ہی مثالیں ایسی ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین اپنی مدت پوری کر کے خوشی خوشی گیا ہو۔
اس سلسلے میں تازہ ترین مثال رمیز راجہ کی ہے جو تین سال کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنائے گئے تھے لیکن جب گذشتہ ماہ انہیں اس عہدے سے ہٹایا گیا تو انہوں نے حکومت کے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور اپنی جگہ کرکٹ بورڈ کی باگ ڈور سنبھالنے والے نجم سیٹھی پر تنقید شروع کر دی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ اگرچہ سیاسی نہیں ہے لیکن درحقیقت یہ حکومتی آشیرباد کا محتاج ہے۔ ملک کے آئین کے تحت وزیراعظم اس عہدے پر تقرری کرتے ہیں لیکن جب بھی حکومت تبدیل ہوتی ہے تو یہ بات یقینی ہوتی ہے کہ کرکٹ بورڈ میں بھی تبدیلی آئے گی۔ کسی بھی دوسرے عہدے کے مقابلے میں سب سے زیادہ دلچسپی اس بات میں ہوتی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا نیا چیئرمین کون ہو گا اور اسے پانے کے خواہش مندوں کی جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
رمیز راجہ کو عمران خان نے احسان مانی کی جگہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنایا تھا۔ ظاہر ہے کہ جب عمران خان ہی وزیراعظم نہیں رہے تو رمیز راجہ کو جانا ہی تھا، لیکن وہ پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے اور شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد بھی پاکستان کرکٹ بورڈ میں آٹھ ماہ گزارنے میں کامیاب ہو گئے حالانکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نیشنل سٹیڈیم کراچی میں صحافیوں کی رمیز راجہ سے ملاقات میں ان سے سوال ہوا تھا کہ اگر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو گئی تو کیا آپ بورڈ کے چیئرمین رہیں گے؟
اس پر رمیز راجہ نے فوراً جواب دیا تھا کہ ’میں یہ عہدہ چھوڑنے میں دو منٹ نہیں لگاؤں گا۔‘ لیکن پھر یہ دو منٹ آٹھ ماہ میں تبدیل ہو گئے۔
رمیز راجہ کے بارے میں یہ بات بھی سننے میں آئی کہ انہوں نے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس عہدے پر برقرار رہنے کے لیے ملک کی اعلیٰ ترین شخصیت کا سہارا بھی لیا لیکن جب وہ اعلیٰ ترین شخصیت بھی اپنے عہدے سے رخصت ہوئی تو پھر رمیز راجہ کے دن بھی گنے جا چکے۔
مجھے ان کی وہ پریس کانفرنس بھی یاد آ رہی ہے جب ان سے ان کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا گیا تھا جس پر وہ بھڑک اٹھے تھے اور انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’میں کہیں نہیں جا رہا ہوں۔ کیا میں یہ بات آپ کو یہ سٹیمپ پیپر پر لکھ کر دے دوں؟‘
رمیز راجہ اب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نہیں رہے لیکن مجھے ہی نہیں بلکہ کرکٹ سے وابستہ کئی اور لوگوں کو بھی اس بات پر حیرت ہے کہ انہوں نے عہدے سے ہٹائے جانے پر میڈیا میں آ کر جو انداز اختیار کیا وہ ان کے شایان شان نہیں تھا۔ وہ انتہائی مہذب پڑھے لکھے کرکٹر سمجھے جاتے ہیں لیکن انہوں نے جس لب و لہجے کا انتخاب کیا وہ انتہائی نامناسب تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ رمیز راجہ کا دور مکمل طور پر ناکام دور تھا۔ وہ ستمبر 2021 میں اس دعوے کے ساتھ کرکٹ بورڈ میں آئے تھے کہ وہ پاکستان کی کرکٹ کا ’جی پی ایس‘ ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے احسان مانی کی طرح کرکٹ بورڈ میں کارپوریٹ سسٹم کو اپنایا اور عمران خان کی خواہشات اور مرضی کے تحت پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں اداروں کو باہر رکھتے ہوئے چھ ایسوسی ایشن والی کرکٹ کو جاری رکھا۔ ان کے دور میں ملک میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کے معاوضوں میں اضافہ ہوا، اسی طرح سابق ٹیسٹ کھلاڑیوں کی پنشن کی رقم میں بھی اضافہ کیا گیا جس کا فائدہ بہرحال انہیں بھی ہوا اور وہ بھی اب 60 سال کی عمر کو پہنچنے پر پنشن کے اہل ہو گئے ہیں۔ ان کے دور میں پاکستانی ٹیم کی مجموعی کارکردگی بہتر رہی۔
رمیز راجہ کے دور میں تعلیم اور کرکٹ ساتھ ساتھ کے منصوبے کے تحت پاتھ وے پروگرام سامنے لایا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان جونیئر لیگ کا انعقاد ہوا جس میں غیرملکی نوجوان کرکٹر بھی کھیلے اور اس کا مقصد ملک میں موجود نوجوان ٹیلنٹ کو سامنے لانا تھا۔ لیکن اس جونیئر لیگ کے بارے میں یہ اعتراض کسی حد تک بجا ہے کہ بورڈ نے آئیکون کرکٹرز کے نام پر ایک بڑی رقم چند سابق کرکٹروں کی خدمات حاصل کرنے پر خرچ کر دی جو ڈومیسٹک کرکٹ یا کسی اور مد میں خرچ کی جا سکتی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نجم سیٹھی نے آنے کے بعد پاکستان جونیئر لیگ کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ عام سی بات ہے کہ جانے والے کے منصوبے آنے والے کو پسند نہیں ہوا کرتے۔
رمیز راجہ کے بارے میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ چیئرمین بننے کے بعد ان کے رویے میں تبدیلی آ گئی تھی اور اس میں جارحانہ عنصر غالب تھا۔ میڈیا ہو یا پاکستان سپر لیگ کے فرنچائز مالکان یا خود پاکستان کرکٹ بورڈ کے افسران، رمیز راجہ تقریباً ہر ایک سے سخت انداز میں بات کرتے نظر آئے تھے۔ دوسرے لفظوں میں وہ جن کے بہت قریب ہوا کرتے تھے، ان سے بھی انہوں نے فاصلے بڑھا دیے تھے۔
یہ تو تھا رمیز راجہ کا ذکر اب کچھ بات نجم سیٹھی کی بھی ہو جائے۔
سیٹھی صاحب کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ نئی جگہ نہیں ہے۔ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ان کی تقرری عدالت میں چیلنج ہوئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب انہیں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ذکا اشرف کو ہٹا کر پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔
یہ عدالتی معاملہ اس قدر طول پکڑ گیا تھا کہ ایک موقعے پر نجم سیٹھی نے عدالت میں یہ بیان حلفی جمع کرایا کہ وہ پی سی بی کے اگلے الیکشن میں چیئرمین کے عہدے پر الیکشن نہیں لڑیں گے، لیکن انہوں نے چیئرمین سے بھی زیادہ طاقتور عہدہ یعنی چیئرمین ایگزیکٹیو کمیٹی تشکیل دے کر اس پر براجمان ہو کر شہریار خان کو بھی پس منظر میں کر دیا تھا جو پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین تھے لیکن تمام اہم فیصلے نجم سیٹھی کر رہے تھے۔
مثلاً انہوں نے شہریار خان کے نہ چاہتے ہوئے بھی ’بگ تھری‘ کا ساتھ دیا تھا جس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بلکہ یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ ان کے دور میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے انڈین کرکٹ بورڈ کے خلاف آئی سی سی کی تنازعات سے متعلق کمیٹی میں کیس دائر کیا تھا جو انڈیا کی جانب سے پاکستان سے نہ کھیلنے کے بارے میں تھا، لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ یہ کیس ہارگیا تھا اور ایک بہت بڑی رقم پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہرجانے کے طور پر ادا کرنی پڑی تھی۔
نجم سیٹھی کا اس مرتبہ بھی کرکٹ بورڈ میں آنا ظاہر ہے ان کی نواز شریف سے قربت کا نتیجہ ہے، لیکن چونکہ انہیں ماضی کے تجربات کا بخوبی اندازہ ہے، لہٰذا اس مرتبہ قانونی رکاوٹوں سے بچتے ہوئے انہوں نے ایسا راستہ اختیار کیا ہے جس میں انہیں ماضی کی طرح عدالتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
حکومت نے پہلے مرحلے میں احسان مانی کے دور کا 2019 کا پی سی بی آئین ختم کر کے 2014 کا آئین بحال کرنے کے لیے نجم سیٹھی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینیجمنٹ کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا ہے اور انہیں 120 دن میں یہ آئین بحال کر کے ملک میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ دوبارہ شروع کرنے اور چھ ایسوسی ایشنوں والی کرکٹ ختم کر کے ریجنل کرکٹ بحال کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
یہ عمل مکمل ہونے کے بعد حکومت دو افراد کو نامزد کرے گی جن میں سے ایک باضابطہ طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنے گا، اور وہ شخص یقینی طور پر نجم سیٹھی ہوں گے۔
تاہم خود نجم سیٹھی کو بھی اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں ان کا مستقبل مسلم لیگ ن کی حکومت سے مشروط ہے۔ اس بات کا اظہار وہ کراچی میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کر چکے ہیں کہ وہ جو کام کرنا چاہتے ہیں وہ اسی صورت میں ممکن ہو سکیں گے جب شہباز شریف کی حکومت رہے گی۔
نجم سیٹھی کے پچھلے ادوار میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ واپس آئی۔ پاکستان سپر لیگ انہی کے دور میں شروع ہوئی لیکن اب جن حالات میں وہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں آئے ہیں وہ ملک کے لیے بھی مشکل ہیں۔ انہوں نے ڈپارٹمنٹل کرکٹ شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن ملک کی موجودہ معاشی صورت حال میں اداروں کے لیے اتنا آسان نہیں کہ وہ اپنے کھیلوں کے ڈپارٹمنٹ یا کم از کم کرکٹ ٹیمیں دوبارہ بحال کر کے انہیں متحرک کر سکیں۔
حکومت کے کہنے پر یہ ادارے کرکٹ ٹیمیں بحال تو کر دیں گے لیکن کرکٹروں اور دیگر سٹاف کی تنخواہیں اور دوسری مالی سہولتیں باقاعدگی سے فراہم کرنا آسان نہ ہو گا۔