پشاور کی مختلف نرسریوں میں رضاکارانہ طور پر بونسائی درخت اور باغبانی کے مختلف طریقے سکھانے والے حسن خان نے اپنے گھر کو مختلف النوع پودوں، پھولوں اور درختوں سے سجایا ہے۔
گھر کے اندرونی دروازے سے داخل ہوتے ہی ’گملا آرٹ‘ کے کئی نمونے نظر آتے ہیں جنہیں انہوں نے کافی نفاست سے سجا رکھا ہے۔
حسن خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے پاس 50 سے زائد بونسائی درخت ہیں جن کی تراش خراش اور انہیں بونسائی میں تبدیل کرنے کا ہنر انہوں نے کسی کی مدد کے بغیر سیکھا ہے۔
ان کے گھر میں تقریباً 100 سے زائد ایسے گملے ہیں جن میں انہوں نے اپنے تخیل کی مدد سے کسی جنگل یا پارک کی شکل دے رکھی ہے۔
’جب ایک گملا ٹوٹ جاتا ہے تو عام شخص اسے پھینک دیتا ہے۔ میں ایسے گملوں کی تلاش میں رہتا ہوں ورنہ خود نیا گملا خرید کر ان کو اپنے مطابق ازسر نو کسی خوبصورت ڈیزائن میں تبدیل کرلیتا ہوں۔‘
حسن نے گھر کے کونے میں رکھے کنکروں، پتھروں اور مختلف قسم کے گملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی انہیں مزید گملوں کو آرٹ کے نمونے میں تبدیل کرنا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ ان کا یہ شوق ان کے گھر کو مستقبل میں کس طرح کا روپ دے گا۔
’بونسائی آرٹ بہت پرانا ہے۔ پشاور میں ہماری کمیونٹی ہے لیکن بہت چھوٹی ہے۔ لوگوں میں ابھی اس کا اتنا شعور نہیں ہے۔ یہ ایک صبر آزما کام ہے، جس میں دس سے پندرہ سال لگ جاتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ بیشتر درختوں کو بونسائی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، اور ان کے پاس ان کے ہاتھ کا بنا بونسائی سات سال پرانا ہے۔
’میں قریبی نرسریوں میں جاکر وہاں کے لوگوں کو سکھاتا بھی ہوں۔ میں بدلے میں ان سے پودوں کے بارے میں معلومات لیتا ہوں اور سیکھتا ہوں۔‘
حسن خان نے بتایا کہ پودوں میں دل لگانے سے انسان کی زندگی پرسکون ہو جاتی ہے اور اس کے جسم میں ایک مثبت تبدیلی سرائیت کرجاتی ہے۔