اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں کیوبا میں قائم بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتاناموبے میں قید پاکستانیوں کی تعداد، ان پر مقدمات کی تفصیلات اور قید کی مدت سے متعلق معاملہ زیر غور آیا اور شرکا کو بتایا گیا کہ اس قیدخانے سے دو پاکستانی بھائیوں کو مارچ میں رہا کیا جائے گا۔
چیئرمین کمیٹی ولید اقبال نے جمعرات کو اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ اجلاس میں وزارت خارجہ امور کی جانب سے گونتانامو بے میں قید تین افراد کی تفصیلات بتائی گئی تھیں، جن میں سیف اللہ پراچہ بھی شامل تھے، جو اب پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
دو بھائیوں میں سے ایک محمد احمد غلام ربانی پاکستان کے شہری ہیں جو 2004 سے کیوبا کے گوانتاناموبے کیمپ میں حراست میں ہیں۔ ان پر کبھی بھی کسی جرم کا الزام نہیں لگایا گیا اور نہ کبھی کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔
امریکی انٹیلی جنس تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ احمد ربانی 1970 میں ایک پاکستانی خاندان میں مدینہ منورہ، سعودی عرب میں پیدا ہوئے تھے۔ احمد ربانی نے لکھا ہے کہ انہیں امریکی حکام کے حوالے کیا گیا کیونکہ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ’عربی بولتے تھے۔‘
پاکستانی شہری سیف اللہ پراچہ کو امریکی سی آئی اے نے جولائی 2003 میں القاعدہ کو معاونت فراہم کرنے کے الزام میں بینکاک ایئر پورٹ سے گرفتار کیا تھا، جنہیں 17 مئی 2021 کو رہائی کا پروانہ ملا اور پھر اکتوبر 2022 میں وہ وطن واپس پہنچے۔
سینیٹر مشتاق احمد نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ سیف اللہ پراچہ 19 سال کے بعد اپنے گھر پہنچے ہیں، جبکہ ربانی برادران کے اوپر کوئی مقدمہ نہیں، نہ ان پر کوئی جرم ثابت ہوا، انہیں بغیر کسی جرم کے گوانتانامو بے جیل میں 20 سال سے قید کر رکھا ہے۔
دو پاکستانی بھائی محمد احمد ربانی اور عبدالرحیم غلام ربانی اس وقت گونتانامو بے جیل میں قید ہیں۔
وزارت خارجہ امور کے حکام نے قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ربانی برادران کی واپسی کا عمل فروری کے آخر تک مکمل ہونے کا امکان ہے اور اس کے ایک ہفتے بعد وہ پاکستان پہنچ جائیں گے۔
سینیٹر مشتاق احمد نے کمیٹی اجلاس میں انکشاف کیا کہ ’ایک اور پاکستانی ماجد خان بھی اسی جیل میں قید ہیں، جن پر بدترین تشدد کیا گیا ہے۔‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ امور ماجد خان کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات فراہم کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزارت خارجہ امور کا ربانی برادران سے متعلق کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے امریکی حکومت سے رابطہ کیا گیا ہے، ہماری طرف سے تمام انتظامات مکمل ہیں۔ امریکی حکومت اس سے متعلق جب آگاہ کرے گی عمل شروع کر دیا جائے گا۔‘
ماجد خان سے متعلق سوال کے جواب میں وزارت خارجہ نے بتایا کہ ان کے پاس تاحال معلومات نہیں ہیں، جلد معلومات حاصل کر لی جائیں گی۔ ماجد خان ان قیدیوں میں شامل ہیں، جن کی پاکستانی شناخت نہیں ہو سکی۔
پاکستانی نژاد امریکی شہری ماجد خان کو اکتوبر 2021 میں ایک فوجی جیوری نے جنگی جرائم کے مقدمے میں 26 سال کی قید کی سزا سنائی تھی۔
ماجد خان کو مارچ 2003 میں کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے کئی منصوبوں میں معاونت فراہم کرنے کے الزامات ہیں، جن میں پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے قتل کی منصوبہ بندی میں شامل ہونے کا الزام بھی شامل ہے۔ انہوں نے 2012 میں خود پر عائد الزامات کو قبول کیا تھا اور حکام سے تعاون پر راضی ہوئے تھے۔
سینیٹ کمیٹی کے اجلاس کے دوران سینیٹر کامران مرتضی نے سوال اٹھایا کہ ’کہیں ایسا تو نہیں ہوتا کہ شناخت کا مسئلہ جان بوجھ کر حل نہیں کیا جاتا۔ لوگوں کی شناخت اور شہریت میں کئی سال کیوں لگ جاتے ہیں۔‘
سینیٹر عرفان صدیقی کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ بیرون ممالک جو بھی پاکستانی قید ہوتا ہے متعلقہ ملک پاکستانی سفارت خانے کو اس کے حوالے سے آگاہ کرتے ہیں اور وزارت داخلہ اس پاکستانی کی شناخت کرتی ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’سمیرا نامی پاکستانی خاتون جو انڈیا میں چار سال قید میں رہیں، ان کی شناخت میں تاخیر کی وجہ سے انہیں مزید قید میں رہنا پڑا۔ شناخت میں تاخیر متعلقہ محکمے کی نااہلی ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود قیدیوں کے حقوق پر کام کرنے والے ادارے ’جسٹس پراجیکٹ پاکستان‘ کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں اس وقت نو ہزار سے زائد پاکستانی جیلوں میں قید ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے گونتاناموبے جیل میں قید پاکستانیوں کی تعداد کے حوالے سے ترجمان وزارت خارجہ سے رابطہ کیا، لیکن اس خبر کی اشاعت تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
دوسری جانب وزارت خارجہ کے حکام نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ پارلیمان میں بیرون ممالک قید پاکستانیوں کے حوالے سے اقدام اٹھائے جا رہے ہیں اور وزارت خارجہ امور میں بیرون ممالک پاکستانیوں کے لیے ایک سیل بنایا گیا ہے۔
حکام نے مزید بتایا کہ ’گونتاناموبے جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بین الاقوامی قوانین کے تحت ہر ماہ 300 منٹ بات کرنے کی اجازت ہے۔ وہ کسی سے بھی رابطہ کر سکتی ہیں اور جیل حکام اتھارٹی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس وقت امریکی ریاست ٹیکسس میں واقع کارزویل جیل میں آج کل 86 سال کی قید کاٹ رہی ہیں اور اسے وفاقی مرکز برائے صحت کا نام دیا گیا ہے۔