خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پولیس کے مطابق سکیورٹی فورسز اور پولیس کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف مشترکہ آپریشن دوسرے روز بھی جاری ہے، جس کی وجہ سے علاقے میں موبائل سگنلز بھی بند ہیں۔
پولیس کے مطابق شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کل (جمعرات) سے شروع کیا گیا ہے، جو تاحال جاری ہے لیکن آپریشن کی مکمل تفصیلات اس کی تکمیل کے بعد جاری کی جائیں گی۔
لکی مروت پولیس کے ترجمان شاہد حمید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز اور پولیس کا مشترکہ آپریشن شدت پسندوں کی موجودگی پر شروع کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا، ’آپریشن تھانہ لکی، تھانہ صدر اور تھانہ ڈیوالہ کی حدود میں جاری ہے جو دریائے کرم کے کنارے واقع ہے۔ ان علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع ہے جن کے خلاف آپریشن ہورہا ہے۔‘
شاہد حمید نے بتایا کہ آپریشن کی وجہ سے موبائل سگنلز کو بند کیا گیا ہے اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق آپریشن میں تین ہیلی کاپٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں، جبکہ بنوں سے بھی نفری طلب کی گئی ہے اور مجموعی طور پر60 سے زائد سکیورٹی فورس کے جوان اس آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
علاقے میں صورت حال کیا ہے؟
زبیر مروت زنگی خیل لکی مروت کے مقامی صحافی ہیں جو اس وقت لکی مروت میں موجود ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ دو روز سے موبائل سگنلز بند ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو رابطے میں شدید مشکلات کا سامنا ہورہا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’جب سے آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے، تب سے بازاروں میں بھی عوام کا رش کم ہے کیونکہ لکی مروت کے مرکزی بازار میں زیادہ تر لوگ دیہاتی علاقوں سے آتے ہیں لیکن وہاں آپریشن جاری ہے۔‘
زبیر مروت نے بتایا، ’جہاں پر یہ آپریشن جاری ہے، وہاں سے بعض لوگوں کو گھروں سے محفوظ مقامات پر بھی منتقل کیا ہے جبکہ دن اور رات کو دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں بھی سننے کو ملتی ہیں۔‘
زبیرکے مطابق کاروباری سرگرمیاں بھی مختلف جگہوں میں بند ہیں کیونکہ گاہک نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ’ایزی لوڈ کی دکانیں مکمل طور پر بند ہیں کیونکہ سگنلز نہیں ہیں تو ایزی لوڈ بھی نہیں ہو سکتا۔‘
لکی مروت میں شدت پسندی
خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع ابتدا ہی سے شدت پسندی سے متاثر رہے ہیں، جن میں سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں شمالی و جنوبی وزیرستان شامل ہیں، تاہم ان اضلاع سمیت لکی مروت اور بنوں بھی ماضی میں شدت پسند گروپوں کا گڑھ رہا ہے۔
غیر سرکاری ادارہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (پی آئی ایف ایس) جو سکیورٹی معاملات پر نظر رکھتا ہے کہ مطابق 2022 میں شدت پسند حملوں میں 2021 کے مقابلے میں 27 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
پی آئی ایف ایس کے مطابق 2022 میں مجموعی طور پر ملک بھر میں 262 حملوں میں، 169 حملے خیبر پختونخوا میں کیے گئے ہیں اور سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں جنوبی وزیرستان میں 30 حملے ہوئے ہیں۔
دوسرے نمبر پر زیادہ حملے شمالی وزیرستان میں 12، لکی مروت میں 13، ڈیرہ اسماعیل خان اور خیبر میں 14 حملے ہوئے ہیں اور 77 فیصد حملوں میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ملک بھر میں ہونے والے حملوں میں پی آئی ایف ایس کے مطابق 419 افراد ہلاک جبکہ 734 زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاکتوں کی شرح 2021 کے مقابلے میں 2022 میں 25 فیصد زیادہ ہے۔
لکی مروت میں 2010 میں سب سے بڑا حملہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے، جب لکی مروت کے ایک والی بال گراونڈ میں دھماکہ ہوا تھا جس میں 140 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
جس بستی میں یہ واقع ہوا تھا، تو اس بستی کو اب ’بیواؤں کی بستی‘ کہا جاتا ہے کیونکہ اس گاؤں کے گھروں میں تقریبا تمام مرد ہلاک ہوگئے تھے۔
رفعت اللہ اورکزئی گذشتہ 15 سالوں سے شدت پسندی کے امور کی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا فوکس ہمیشہ جنوبی اضلاع ہی رہی ہے اور ان اضلاع میں سینکڑوں شدت پسند کارروائیاں کر چکے ہیں۔
لکی مروت میں مولوی ٹیپو گل ایک شدت پسند گروپ بہت سرگرم ہے۔ رفعت اللہ نے بتایا کہ لکی مروت میں شدت پسند کارروائیوں کی ایک وجہ اس گروپ کا ٹی ٹی پی کے ساتھ گذشتہ سال الحاق ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا، ’ٹیپو گل کے تین شت پسند گروپ تھے اور تینوں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کیا ہے۔ ایک دوسرا گروپ اختر گل محسود گروپ بھی ہے جنہوں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کیا ہے۔‘
رفعت اللہ اورکزئی نے مزید بتایا: ’2021 سے لکی مروت میں جتنے بھی حملے ہوئے ہیں، ان میں ان گروپوں کا ہاتھ ہے جو ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کر چکے ہیں۔‘
اس کے علاوہ رفعت اللہ کے مطابق: ’لکی مروت میں اختر خلیل شدت پسند گروپ بھی موجود ہے، جو وزیرستان کے حافظ گل بہادر گروپ کے قریب سمجھا جاتا ہے اور حالیہ دنوں میں دو واقعات ہوئے ہیں، جن میں سکیورٹی اہلکاروں کا سر کاٹ دیا گیا تھا، اور ان کا الزام اختر خلیل گروپ پر ہے۔
’اختر خلیل گروپ بھی رفعت اللہ کے مطابق ایک وقت میں ٹی ٹی پی کے ساتھ ملا ہوا تھا، تاہم حافظ گل بہادر کے کچھ لوگ جن میں علیم خان گروپ بھی تھا جب ٹی ٹی پی کے ساتھ مل گیا، تو اختر خلیل گروپ ٹی ٹی پی سے چلا گیا اور یہ ان کے آپس کے اختلافات تھے۔‘
رفعت اللہ اورکزئی نے بتایا، ’پچھلے سال نومبر میں بھی اسی قسم کا ایک آپریشن کیا گیا ہے اور شدت پسندی میں کمی آئی تھی، لیکن اب ٹی ٹی پی کے حکومت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد شدت پسندی میں دوبارہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔‘
مقامی صحافی زبیر مروت کے مطابق علاقے میں تعلیم کی کمی بھی شدت پسندی کی ایک وجہ ہے کیونکہ ان کے مطابق زیادہ تر شدت گروپوں میں شامل افراد مقامی ہی ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’تعلیم کے مواقع کم ہوں، تو نوجوان اس قسم کی شدت پسند سرگرمیوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔‘