پنجاب کی سابق حکمران جماعت مسلم لیگ ق کی قیادت اور چوہدری برادران کے آپس میں اختلافات سنگینی اختیار کر رہے ہیں۔
ایک طرف چوہدری پرویز الٰہی نے صوبائی صدر ہوتے ہوئے مرکزی پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو پنجاب کا پارٹی اجلاس بلا کر پارٹی صدارت سے ہٹا دیا۔ دوسری جانب انہوں نے تحریک انصاف کے رہنماؤں سے متعلق بھی بیانات دیے اور فواد چوہدری سےمتعلق بیان پر معذرت بھی کی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق چوہدری بردران کے بڑھتے اختلافات جبکہ دوسری جانب چوہدری ہرویزالہی کی پی ٹی آئی میں ممکنہ شمولیت کی بجائے تنقید، ق لیگ کی سیاست خطرے میں ڈال رہی ہے۔
ان حالات میں پارٹی کو منظم کرنا مشکل دکھائی دیتا اور اب فوری اتحاد کی بھی کوئی صورت نہیں بن پارہی۔ ق لیگ سے وابستہ اراکین اسمبلی، کارکن اور رہنما بھی مخمصے کا شکار ہیں کہ کس طرح سیاسی میدان میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھ پائیں گے؟
مسلم لیگ ق کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر باؤ رضوان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم نے پنجاب میں پارٹی الیکشن کرائے ہیں جس میں چوہدری شجاعت حسین اب پارٹی کے مرکزی صدر نہیں رہے اور اب طارق بشیرچیمہ جنرل سیکریٹری نہیں ہیں۔‘
باؤ رضوان نے کہا: ’چوہدری شجاعت ہمارے بزرگ ہیں مگر ہم نے آئینی طریقے سے الیکشن کرا کے انہیں ہٹایا ہے۔ اب اتحاد اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ چوہدری پرویز الٰہی کی قیادت پر اعتماد کریں اور ہمارے ساتھ آجائیں۔‘
ان کے بقول تحریک انصاف کے ساتھ ان کا اتحاد برقرار ہے اور رہے گا مگر ق لیگ کی شناخت الگ رکھ کر آئندہ بھی اتحاد کی صورت میں ہی سیاست کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ق کا جمعرات کومسلم لیگ ہاؤس ڈیوس روڈ لاہورمیں مشاورتی اجلاس ہوا جس میں چوہدری شجاعت حسین کو صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ ہوا اور ووٹنگ سے چوہدری وجاہت حسین کو مسلم لیگ ق کا صدر بنا دیا گیا۔
باؤ رضوان کے مطابق اس بارے میں چوہدری شجاعت حسین اور طارق بشیر چیمہ کو نوٹس بھی بھجوا دیے گئے ہیں۔
طارق بشیر چیمہ کو ہٹا کر کامل علی آغا کو مرکزی سیکریٹری جنرل بنا دیا گیا دیگرعہدے داروں کا اعلان بھی مشاورت سے کیا جائے گا۔
جمعے کو پاکستان مسلم لیگ کے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’نہایت افسوس اور دکھ کا مقام ہے کہ چوہدری شجاعت حسین جنہوں نے چودھری ظہور الٰہی شہید کی سیاسی میراث کو زندہ رکھا، آگے بڑھایا اور خاندان کو اکٹھے رکھنے کے لیے قربانیاں دیں اُنہیں ان کے اپنےچھوٹے بھائی نے اپنی خود غرض سیاست کا نشانہ بناتے ہوئے غیر آئینی طور پر پارٹی کی صدارت سے ہٹا دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ پرویز الہیٰ نے چوہدری شجاعت کو ہٹا کر خود کو کٹھ پتلی صدر بنانے کی ناکام کوشش کی ہے،حلقے کی عوام جانتی ہے کہ چوہدری ظہور الٰہی شہید اور چوہدری شجاعت حسین نے ہمیشہ اپنی دی ہوئی زبان کا مان رکھا ہے۔
چوہدری سالک نے کہا : ’کچھ لوگوں نے اپنی ذاتی خواہشات، انا ،لالچ اور عہدوں کی حوس میں خاندان کی ساکھ، روایت اور شہید ظہور الٰہی کے سیاسی نظریے سے غداری کی ہے۔‘
چوہدری شجاعت نے بطور مرکزی صدر ق لیگ مونس الٰہی کو قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر کےعہدے سے ہٹایا اورمونس الٰہی کو عہدے سے برطرف کرکے پارٹی کے سیکریٹری جنرل طارق بشیر چیمہ کو پارلیمانی لیڈر مقرر کردیا گیا۔
گذشتہ دنوں 20 جنوری کوچوہدری شجاعت حسین نے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی پارٹی رکنیت معطل کرکے انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا۔
طارق بشیر چیمہ نے مونس الٰہی، حسین الٰہی اور سینیٹر کامل علی آغا کو بھی شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔
چوہدری بردارن میں اختلافات کیا ہیں؟
ق لیگ کی مرکزی قیادت چوہدری شجاعت حسین اور ان کے کزن چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان پہلی بار تقسیم اس وقت نظر آئی جب وفاق میں چوہدری شجاعت نے پی ڈی ایم کا ساتھ دیا جبکہ پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی اور ق لیگی اراکین پی ٹی آئی کے ساتھ رہے۔
پنجاب میں تبدیلی کے لیے پی ڈی ایم حکومت نے چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا لیکن وہ اچانک پی ٹی آئی کی طرف چلے گئے اس کے بعد پنجاب کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب سے پی ٹی آئی کی نشستیں بڑھیں اور حمزہ شہباز جو وزیر اعلیٰ تھے ان کی وزارت اعلیٰ خطرے میں پڑی تو چوہدری شجاعت نے آصف زرداری کو لیٹردے دیا جس میں ق لیگی ایم پی ایز کو حمزہ کی حمایت کا کہا گیا۔
مد مقابل وزارت اعلیٰ کے امیدوار پرویز الٰہی تھے جو وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے مگر چوہدری بردران میں اختلاف کی دراڑ مزید گہری ہوگئی۔
چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے بیٹے مونس الٰہی نے تحریک انصاف کے ساتھ شمولیت کا بھی اشارہ دیا جس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔
دوسری جانب چوہدری برادران کے قریبی عزیز محسن نقوی کے نگران وزیر اعلیٰ بننے پر بھی چوہدری مونس الٰہی اورپرویز الہی کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
سلمان غنی کے مطابق ق لیگ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتی ہے اب بھی ق لیگ کا اتحاد یا اختلاف طاقتور حلقوں کی منشا کے مطابق ہی ہوگا۔
ق لیگ کا مستقبل کیا ہوگا؟
سیاسی تجزیہ کار صحافی سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ق شروع سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے سہارے چلنے والی جماعت رہی کیونکہ اس کا وجود جنرل مشرف کے زیر سایہ قیام میں آیا اور پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد بھی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر کیا گیا۔
’اس جماعت کی بقا چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی کے اتحاد سے جڑی ہے مگر جس طرح اب دو دھڑے بن گئے ہیں اور پھر پارٹی اجلاس بلا کر چوہدری پرویز الہی نے صوبائی صدر ہوتے ہوئے مرکزی صدر چوہدری شجاعت کو ہٹا کر ان کے بھائی چوہدری وجاہت حسین کو مرکزی صدارت دی حالانکہ الیکشن کمیشن میں چوہدری شجاعت کے نام سے پارٹی رجسٹرڈ ہے۔‘
سلمان کے بقول چوہدریوں میں جتنے اختلافات بڑھتے جارہے ہیں اتنے ہی ق لیگ کے کمزور ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’کیونکہ چوہدری پرویز الٰہی نے پہلے پی ٹی آئی میں شمولیت کی خواہش کی اور اب ق لیگ ہی قابو کرنے کی طرف چلے گئے اور پی ٹی آئی قیادت کے خلاف تنقید بھی سامنے آئی لہذا لگتا ہے چوہدری پرویز الہی پی ٹی آئی سے بھی علیحدگی اختیار کرنا چاہتے ہیں مگر اس سے ان کی پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا دوسرا یہ کہ چوہدری شجاعت دیکھیں اب کیا قدم اٹھاتے ہیں اور خدشہ ہے کہ اس پارٹی پر قبضے کی لڑائی میں سیاسی نقصان مزید نہ بڑھ جائے۔‘
سلمان غنی نے کہا کہ ق لیگ کی سیاسی قوت صرف چوہدری خاندان کا اتحاد تھا اگر یہ متحد نہیں ہوں گے تو پھر ق لیگ کا آگے بڑھنا اور نشستیں لینا یا کسی سے اتحاد خطرے میں ہوگا۔
اینکر پرسن تنزیلہ مظہر کے مطابق چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی دونوں ہی ق لیگ کی پہچان سمجھے جاتے ہیں اختلاف کی صورت میں مرکزی سطح یا پنجاب میں بھی اس پارٹی کو موثر پذیرائی نہیں مل سکتی۔
تنزیلہ کے بقول گذشتہ چند سالوں میں ق لیگ نے جس طرح کے فیصلے کیے ان سے لگتا نہیں کہ بڑی جماعتوں کے درمیان سیاسی میدان میں یہ نمایاں حیثیت حاصل کر پائیں گے۔
تنزیلہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’چوہدری شجاعت وفاقی حکمران اتحاد میں شامل ہیں اور پنجاب میں پرویز الٰہی پی ٹی آئی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ تھے لیکن اب پنجاب میں وہ اقتدار سے باہر ہیں اسی لیے ق لیگ پرقبضہ کی کوشش کر رہے ہیں مگر اس طرح مزید نقصان ہوگا۔‘
ان کے مطابق: ’اگر ماضی کو دیکھا جائے تو ہو سکتا ہے سیاسی طور پر چوہدری بردران دوبارہ متحد ہوجائیں کیونکہ چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی پیپلز پارٹی رہنما آصف زرداری کا احترام کرتے ہیں مستقبل میں ایک یہ چانس ہوسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں ق لیگ کو متحد کر کے سیاسی اتحاد بنا لے مگر فوری اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔‘