سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے دعویٰ کیا ہے کہ یوکرین پر حملے سے قبل ایک فون کال میں روسی صدر ولادی میر پوتن نے یہ کہتے ہوئے انہیں میزائل حملے میں جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی کہ ’صرف ایک منٹ لگے گا۔‘
سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ ’غیر معمولی‘ بات چیت فروری 2022 میں اس وقت ہوئی جب انہوں نے یوکرین کے لیے مغربی حمایت ظاہر کرنے کی آخری کوشش میں کیئف کا دورہ کیا۔
بورس جانسن نے یہ دعویٰ بی بی سی ٹو کی تین حصوں پر مشتمل ایک نئی سیریز میں کیا ہے۔ اس سیریز میں یہ دکھایا جا رہا ہے کہ حملے سے پہلے کے برسوں میں مغرب ولادی میرپوتن کے ساتھ کس طرح نبرد آزما رہا۔
سابق برطانوی وزیراعظم، جنہیں ستمبر2022 میں عہدے سے ہٹایا گیا، نے فروری 2022 کے شروع میں کیئف کا دورہ کیا تاکہ روس کو متنبہ کیا جا سکے کہ حملہ تباہ کن ثابت ہوگا اور سخت مغربی پابندیوں کا باعث بنے گا۔
بورس جانسن نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے روسی رہنما کو بتایا کہ کشیدگی میں اضافے سے مغربی ریاستیں یوکرین کی حمایت بڑھا دیں گے، جس کا مطلب ہے روس کی سرحدوں پر ’نیٹو کم نہیں، زیادہ ہوگی۔‘
سابق وزیراعظم نے ولادی میر پوتن کے ساتھ کال کے بارے میں بتایا: ’انہوں نے کہا، بورس، آپ کہتے ہیں کہ یوکرین جلد نیٹو میں شامل ہونے نہیں جا رہا [...] جلد سے کیا مراد ہے؟‘ اور میں نے کہا، ’آپ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ مستقبل قریب میں نیٹو میں شامل نہیں ہونے جا رہا ہے۔‘
بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ’ایک موقع پر انہوں نے مجھے دھمکی دیتے ہوئے کہا بورس، میں آپ کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا لیکن میزائل سے اس میں صرف ایک منٹ لگے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ وہ جس پرسکون لہجے میں بول رہے تھے، جس طرح کی لاتعلقی کی فضا ان کے ارد گرد دکھائی دے رہی تھی، وہ میری مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں کے ساتھ صرف کھیل رہے تھے۔‘
برطانوی وزیر دفاع بین والیس نے بھی پیر کی شام نشر ہونے والے ’پوتن بمقابلہ مغرب‘ پروگرام سے گفتگو کی، جس میں انہوں نے فروری میں ماسکو کے اپنے سفر کے بارے میں بات چیت کی۔
انہوں نے روس کے وزیر دفاع سرگئی شوئیگو اور چیف آف جنرل سٹاف ویلری گیراسیموف سے ہونے والی بات چیت پر گفتگو کی۔
بین والیس نے کہا، ’اور مجھے یاد ہے کہ میں نے وزیر شوئیگو سے کہا تھا کہ ’وہ لڑیں گے‘ اور انہوں نے کہا، ’میری والدہ یوکرینی ہیں، وہ نہیں لڑیں گے!‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔‘
برطانوی وزیر دفاع نے کہا کہ یہ روس کی جانب سے غنڈہ گردی یا طاقت کا مظاہرہ ہے: ’میں آپ سے جھوٹ بولنے جا رہا ہوں۔ آپ جانتے ہو میں جھوٹ بول رہا ہوں. میں جانتا ہوں کہ آپ جانتے ہیں کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور میں اب بھی آپ سے جھوٹ بولوں گا. وہ جانتا تھا کہ میں جانتا ہوں اور میں جانتا تھا کہ وہ جانتا ہے. لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ، یہ بتانے کے لیے تھا: ’میں طاقتور ہوں۔‘
'مجھے یاد ہے کہ جب ہم باہر جا رہے تھے تو جنرل گیراسیموف نے کہا تھا کہ ہم پھر کبھی ذلیل نہیں ہوں گے۔ ہم دنیا کی چوتھی فوج ہوا کرتے تھے، اب ہم دوسرے نمبر پر ہیں۔ اب امریکہ اور ہم ہیں۔ اور اس لمحے میں ممکنہ طور پر یہ احساس تھا کہ [وہ ایسا کیوں کر رہے تھے]۔‘
اس پروگرام میں وولودی میر زیلنسکی کی نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینزسٹولٹن برگ کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔
زیلنسکی نے کہا، ’میں نے ان سے کہا: ’جینز، میں نیٹو میں شامل ہونا چاہتا ہوں، کیا آپ ہمیں نیٹو میں دیکھتے ہیں؟‘ کیونکہ حقیقی رکنیت کے علاوہ کچھ بھی ہمارے ملک کا دفاع نہیں کرے گا۔ یہ صرف غیر منصفانہ اور اچھا نہیں ہے. تم ہمیں برابر نہیں سمجھتے۔‘
یوکرینی صدر نے تنازع سے قبل نیٹو کے موقف پر اپنی مایوسی کی تفصیل بیان کی ہے۔ ’اگر آپ جانتے ہیں کہ کل روس یوکرین پر قبضہ کر لے گا تو آج آپ مجھے کچھ ایسا کیوں نہیں دیتے جس سے میں اسے روک سکوں؟ یا اگر تم مجھے نہیں دے سکتے تو اسے خود ہی روکو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بورس جانسن کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کابینہ کے وزیر مائیکل گوو نے رپورٹس پر سابق وزیر اعظم کا دفاع کیا ہے۔ ان رپورٹس کے مطابق بی بی سی کے نئے چیئرمین کے طور پر رچرڈ شارپ کے اعلان سے چند روز قبل انہیں کہا گیا تھا کہ وہ ان سے ان کے ذاتی مالی معاملات کے ’مشورہ‘ طلب کرنا چھوڑ دیں۔
دی سنڈے ٹائمز کے مطابق بورس جانسن کو کابینہ سیکریٹری سائمن کیس نے 22 دسمبر 2020 کو خبردار کیا تھا کہ وہ رچرڈ شارپ کے ساتھ اپنے مالی انتظامات پر بات چیت نہ کریں، ان کی بی بی سی کے عہدے کے لیے تقرری کا اعلان چھ جنوری 2021 کو ہونا تھا۔
سکائی نیوز کے پروگرام ’سوفی رج‘ میں اتوار کو مائیکل گوو سے اس معاملے پر سوال اٹھایا گیا اور انہوں نے اس بات کو مسترد کر دیا کہ بورس جانسن حکومت کے لیے ’بوجھ‘ بن رہے ہیں۔
مائیکل گوو نے کہا، ’میں جانتا ہوں۔۔۔ اور میں نے ماضی میں ایسا ہوتے دیکھا ہے۔۔۔ کہ یہاں ایک خط ہے، وہاں ایک نوٹ ہے، وہاں ایک تبصرہ ہے۔ یہ ایک نتیجے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایک بار جب آپ تمام ثبوتوں کو جان لیتے ہیں، تو حقیقت میں، ایک اور نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں بورس جانسن بہت اچھے وزیر اعظم تھے اور میرے خیال میں ان کے پاس مستقبل میں عوامی زندگی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔‘
بورس جانسن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’رچرڈ شارپ نے کبھی بھی بورس جانسن کو کوئی مالی مشورہ نہیں دیا اور نہ ہی بورس جانسن نے ان سے کوئی مالی مشورہ مانگا۔‘
© The Independent