پاکستان مسلم لیگ ق میں الیکشن کمیشن کے چوہدری شجاعت حسین کو بطور صدر بحالی کے فیصلے کے بعد اختلاف مذید سنگین ہوگئے ہیں اور مسلم لیگ ق کے پرویز الہی گروپ کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔
مسلم لیگ ق کے مرکزی جنرل سیکریٹری کامل علی آغا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم الیکشن کمیشن کی مداخلت تسلیم نہیں کرتےکیوں کہ پارٹیوں کے سربراہان اور عہدیداروں کے انتخاب کا اختیار پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کے پاس ہوتا ہے لہذا میں مرکزی جنرل سیکریٹری اور چوہدری وجاہت حسین مرکزی صدر برقرار ہیں کیوں کہ یہ انتخاب آئین کے مطابق جنرل کونسل نے کیا ہے۔‘
کامل علی آغا کے بقول: ’اس معاملے پر مشاورت کے بعد رٹ پٹیشن تیار کر لی گئی ہے اور سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک مستقبل کی بات ہے ہم ق لیگ کو مضبوط بنائیں گے اور کسی صورت اپنی پارٹی کسی اور کے ہاتھ نہیں جانے دیں گے، چوہدری پرویز الہی بدستور ق لیگ پنجاب کے صدر ہیں اور پوری پارٹی ان کے فیصلوں پر عمل کرنے کی پابند ہے۔‘
اس سے قبل چوہدری شجاعت حسین کو مرکزی صدارت سے ہٹا کر جنرل کونسل اجلاس میں چوہدری وجاہت حسین کو مرکزی صدر اور طارق بشیر چیمہ کی جگہ کامل علی آغا کو مرکزی سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن میں چوہدری شجاعت حسین کی درخواست پر منگل کو چوہدری شجاعت کو ہٹائے جانے کا اقدام غیر آئینی قرار دے کر انہیں ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا ہے۔
اس فیصلہ کو ق لیگ چوہدری پرویز الہی گروپ نے مسترد کرتے ہوئے اسے غیر آئینی اقدام قرار دیا ہے۔
کامل علی آغا نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں چوہدری شجاعت نے انہیں ہٹائے جانے کے بعد درخواست دائر نہیں کی تھی بلکہ پہلے سے موجود ایک درخواست پر فیصلہ دیا گیا ہے جو غیر آئینی ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ق چوہدری شجاعت گروپ کے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین اپنے بیان میں کہہ چکے ہیں کہ ’چوہدری پرویز الہیٰ نے چوہدری شجاعت کو ہٹا کر خود کو کٹھ پتلی صدر بنانے کی ناکام کوشش کی ہے، حلقے کی عوام جانتی ہے کہ چوہدری ظہور الٰہی شہید اور چوہدری شجاعت حسین نے ہمیشہ اپنی دی ہوئی زبان کا مان رکھا ہے۔‘
چوہدری سالک نے کہا کہ ’کچھ لوگوں نے اپنی ذاتی خواہشات، انا، لالچ اور عہدوں کی حوس میں خاندان کی ساکھ، روایت اور شہید ظہور الٰہی کے سیاسی نظریے سے غداری کی ہے۔‘
چوہدری برادران میں اختلافات کیا ہیں؟
ق لیگ کی مرکزی قیادت چوہدری شجاعت حسین اور ان کے کزن چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان پہلی بار تقسیم اس وقت نظر آئی جب وفاق میں چوہدری شجاعت نے پی ڈی ایم کا ساتھ دیا جبکہ پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی اور ق لیگی اراکین پی ٹی آئی کے ساتھ رہے۔
پنجاب میں تبدیلی کے لیے پی ڈی ایم حکومت نے چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا لیکن وہ اچانک پی ٹی آئی کی طرف چلے گئے اس کے بعد پنجاب کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب سے پی ٹی آئی کی نشستیں بڑھیں اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ خطرے میں پڑی تو چوہدری شجاعت نے آصف زرداری کو لیٹر دے دیا جس میں ق لیگی ایم پی ایز کو حمزہ شہباز کی حمایت کا کہا گیا تھا۔
حمزہ شہباز کے مد مقابل وزارت اعلیٰ کے امیدوار پرویز الٰہی تھے جو وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے مگر چوہدری بردران میں اختلاف کی دراڑ مزید گہری ہوگئی۔
چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے بیٹے مونس الٰہی نے تحریک انصاف کے ساتھ شمولیت کا بھی اشارہ دیا جس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔
دوسری جانب چوہدری برادران کے قریبی عزیز محسن نقوی کے نگران وزیر اعلیٰ بننے پر بھی چوہدری مونس الٰہی اورپرویز الہی کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
ق لیگ کا مستقبل کیا ہوگا؟
سیاسی تجزیہ کار صحافی سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلم لیگ ق شروع سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے سہارے چلنے والی جماعت رہی کیوں کہ اس کا وجود جنرل مشرف کے زیر سایہ قیام میں آیا اور پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد بھی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس جماعت کی بقا چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی کے اتحاد سے جڑی ہے مگر جس طرح اب دو دھڑے بن گئے ہیں اور پھر پارٹی اجلاس بلا کر چوہدری پرویز الہی نے صوبائی صدر ہوتے ہوئے مرکزی صدر چوہدری شجاعت کو ہٹا کر ان کے بھائی چوہدری وجاہت حسین کو مرکزی صدارت دی حالانکہ الیکشن کمیشن میں چوہدری شجاعت کے نام سے پارٹی رجسٹرڈ ہے۔‘
سلمان کے بقول: ’چوہدریوں میں جتنے اختلافات بڑھتے جارہے ہیں اتنے ہی ق لیگ کے کمزور ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
’کیوں کہ چوہدری پرویز الٰہی نے پہلے پی ٹی آئی میں شمولیت کی خواہش کی اور اب ق لیگ ہی قابو کرنے کی طرف چلےگئے اور پی ٹی آئی قیادت کے خلاف تنقید بھی سامنے آئی لہذا لگتا ہے چوہدری پرویز الہی پی ٹی آئی سے بھی علیحدگی اختیار کرنا چاہتے ہیں مگر اس سے ان کی پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا دوسرا یہ کہ چوہدری شجاعت دیکھیں اب کیا قدم اٹھاتے ہیں اور خدشہ ہے کہ اس پارٹی پر قبضے کی لڑائی میں سیاسی نقصان مزید نہ بڑھ جائے۔‘
اینکر پرسن تنزیلہ مظہر کے مطابق چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی دونوں ہی ق لیگ کی پہچان سمجھے جاتے ہیں اختلاف کی صورت میں مرکزی سطح یا پنجاب میں بھی اس پارٹی کو موثر پذیرائی نہیں مل سکتی۔
تنزیلہ کے بقول گذشتہ چند سالوں میں ق لیگ نے جس طرح کے فیصلے کیے ان سے لگتا نہیں کہ بڑی جماعتوں کےدرمیان سیاسی میدان میں یہ نمایاں حیثیت حاصل کر پائیں گے۔
تنزیلہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’چوہدری شجاعت وفاقی حکمران اتحاد میں شامل ہیں اور پنجاب میں پرویز الٰہی پی ٹی آئی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ تھے لیکن اب پنجاب میں وہ اقتدار سے باہر ہیں اسی لیے ق لیگپرقبضہ کی کوشش کر رہے ہیں مگر اس طرح مزید نقصان ہوگا۔‘
ان کے مطابق: ’اگر ماضی کو دیکھا جائے تو ہو سکتا ہے سیاسی طور پر چوہدری بردران دوبارہ متحد ہوجائیں کیونکہچوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی پیپلز پارٹی رہنما آصف زرداری کا احترام کرتے ہیں مستقبل میں ایک یہ چانسہوسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں ق لیگ کو متحد کر کے سیاسی اتحاد بنا لے مگر فوری اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔‘