افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزرا اپنا بوجھ دوسروں پر نہ ڈالیں اور پشاور دھماکے کی باریک بینی سے تحقیقات ہونی چاہییں۔
کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغان وزیر خارجہ مولوی امیرخان متقی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے محترم وزرا سے بھی امید ہے اپنے کندھوں کا بوجھ دوسروں پر نہ ڈالیں۔ اپنے مسائل کی بنیادیں اپنے گھر میں تلاش کریں۔ انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ پشاور دھماکے کی پوری باریکی سے تحقیقات کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ خطہ بارود، دھماکوں اور جنگوں سے آشنا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی جیکٹ، کوئی خودکش، کوئی چھوٹا بم اتنی تباہی پھیلائے۔ پچھلے 20 سالوں میں ہم نے کوئی بم ایسا نہیں دیکھا جو مسجد کی چھت اور سینکڑوں انسانوں کو اڑائے۔ لہذا اس کی باریک بینی سے تحقیق ہونی چاہیے۔ اس کا الزام افغانستان پر نہ لگایا جائے۔‘
افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ ’اگر آپ کے بقول افغانستان دہشت گردی کا مرکز ہے تو یہ بھی آپ ہی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ اگر دہشت گردی افغانستان میں ہوتی تو یہ چین کی جانب بھی پھیلتی، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران کی جانب بھی پھیلتی۔
’اگر افغانستان کے پڑوسی ممالک میں امن ہے۔ خود افغانستان میں امن ہے تو معلوم ہوا کہ دہشت گردی یہاں نہیں ہے۔‘
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنے خطاب میں افغانستان اور پاکستان کے آپس میں تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’باہمی دشمنی کا بیج نہ بوئیں۔ یہ دو برادر اقوام ہیں دونوں بھائی چارے کی فضا میں زندگی گزاریں گے۔‘
پاکستانی وزرا کا موقف کیا تھا؟
گذشتہ روز پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’افغانستان جنگ کے بعد ہزاروں لوگوں کو پاکستان سیٹ کروایا گیا اور افغانستان کی جنگ ہماری دہلیز پر آگئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’افعانستان سے آنے والے لوگوں کو پاکستان میں سیٹ کروانے کے خلاف ردعمل سوات اور وانا میں آیا۔ ان لوگوں کو یہاں بسانا ایک غلط فیصلہ تھا کیوں کہ ان لوگوں امن دیکھا ہی نہیں ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ وہ پر امن معاشرے میں رہیں تو یہ ہماری غلط فہمی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’ساڑھے چار لاکھ افغان باشندے قانونی طریقے سے پاکستان آئے اور واپس نہیں گئے ان میں سے کون دہشت گرد ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘
قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ہم نے ہر قیمت پر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ’پشاور واقعے پر ہر پاکستانی افسردہ ہے، ہمیں مجاہدین تیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی، لوگوں کو مجاہدین ہم نے بنایا اور وہ خود دہشت گرد بن گئے، روزانہ فوج اور ایف سی کے لوگ قربانیاں دے رہے ہیں، قوم فوج اور قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘
کابینہ کے فیصلے
ادھر پاکستان کی وفاقی کابینہ نے جس کا اجلاس بدھ کو وزیراعظم محمد شہبازشریف کی زیر صدارت اسلام آبا میں منعقد ہوا‘ نے پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش دھماکے کی متفقہ طور پر مذمت کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کابینہ نے اپنے اجلاس میں تمام متاثرہ خاندانوںسے دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا۔
وفاقی کابینہ نے قرارداد میں واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ کے گھرمیں عبادت میں مصروف مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے مسلمان نہیں ہوسکتے اور نہ ہی انسان کہلانے کے حق دار ہیں۔
کابینہ نے اس پختہ عزم و ارادے کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کی ہر قسم کا مکمل خاتمہ اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ قرارداد میں کہاگیا کہ پاکستانیوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے۔
کابینہ نے فیصلہ کیا کہ خیبرپختونخوا میں پولیس اور انسداد دہشت گردی کے ادارے کی تنظیم نو کی جائے گی اور اسے معیاری تربیت اور جدید اسلحہ سمیت ضروری سازو سامان کی فراہمی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچا جاسکے۔
کابینہ نے ملک کی تمام سیاسی قوتوںپر زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف قومی اتحاد، یکجہتی اور ایک آواز کا ہونا وقت کی ضرورت ہے۔
کابینہ نے کہا کہ سیاسی تقسیم اور رنجشوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملک اور عوام کے مفاد میں تمام سیاسی قوتیں متحد ہو جائیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے ایجنڈے پر متفق ہوں تاکہ قومی دفاع‘ سلامتی اور امن و معیشت کے تقاضوں کا موثر انداز میں تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔