دھماکوں کی کوریج: ’جہاں سے لوگ بھاگتے ہیں صحافی وہاں پہنچتے ہیں‘

پشاور حملے نے ایک مرتبہ پھر صحافیوں کے ذہنوں میں ماضی کی وہ یاد تازہ کردی جب وہ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر بم دھماکوں کی کوریج کرتے تھے۔

رسول داوڑ پشاور میں گذشتہ تقریباً 15 سالوں سے صحافت کر رہے ہیں۔  وہ کہتے ہیں کہ پھولوں کے شہر پشاور میں دوبارہ بارود کے دھویں کو دیکھ کر وہ خاصے غمگین تو ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنے پیشے صحافت کوعبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔

حال ہی میں پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ایک خوفناک حملے میں 100 سے زائد اموات ہوچکی ہیں جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔

صحافی داوڑ کہتے ہیں: ’جب ہمیں اطلاع ملی کہ پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکہ ہوا ہے، تو ہم تھوڑی دیر میں وہاں پہنچ گئے لیکن ادھر کہرام مچا ہوا تھا۔ زخمی ملبے تلے دبے تھے اور مدد کے لیے پکا رہے تھے لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے مگر ریسکیو اہلکار ملبے کو ہٹانے اور زخمیوں کو نکالنے میں مصروف تھے۔‘

ملک بھر اور خاص کر پشاور 2007 سے 2015 تک شدت پسندی کی شدید لہر کی زد میں تھا اور ایسا وقت بھی اس درمیان آیا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر بم دھماکے اور خود کش حملے کیے جاتے تھے۔

 تاہم پاکستان فوج کی جانب سے متعدد فوجی آپریشن کے نتیجے میں گذشتہ تقریباً آٹھ سالوں سے شدت پسندی کی لہر میں کمی دیکھی گئی تھی اور خیبر پختونخوا کے عوام کے ذہنوں میں ایمبولینس کے سائرن، دھماکوں کی گونج اور بارود کی بو معدوم پڑنے لگی۔

لیکن رواں ہفتے پشاور کی انتہائی حساس جگہ پولیس لائنز، جہاں صوبے کی پولیس کے اعلیٰ افسران کے دفاتر واقع ہیں، نے ایک مرتبہ پھر صحافیوں کے ذہنوں میں ماضی کی وہ یاد تازہ کردی جب وہ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر بم دھماکوں کی کوریج کرتے تھے۔

ان کا کہنا ہے: ’گذشتہ سات آٹھ سالوں میں ہمیں تھوڑا آرام مل گیا تھا اور شدت پسند کارروائیاں نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن پولیس لائن دھماکے سے ایسا لگتا ہے کہ شدت پسندی نے دوبارہ سر اٹھایا ہے اور کہیں دوبارہ ہمیں پرتشدد واقعات دیکھنے نہ پڑ جائیں۔‘

رسول داوڑ نے  نے بتایا: ’دھماکے کی جگہ سے عموماً لوگ بھاگتے ہیں لیکن صحافی دھماکے کی جگہ کا رخ کرتے ہیں تاکہ عوام کو آگاہ کرسکیں۔ ماضی میں دھماکوں کی کوریج سے جو ذہنی دباؤ تھا، وہ گذشتہ آٹھ سالوں میں تقریباً ختم ہوگیا تھا لیکن اب لگتا ہے وہ ٹراما دوبارہ شروع ہوجائے گا۔‘

رسول داوڑ کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے اور پشاور میں ایک مشہور نجی چینل کے ساتھ بطور نمائندہ خصوصی کام کرتے ہیں۔ رسول داوڑ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق سربراہان کے انٹرویو بھی کیے ہیں اور اب تک شدت پسندی کی کوریج کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ شدت پسند کارروائیوں کی کوریج کے دوران سب سے بڑا دکھ اور پریشانی بچوں اور خاندان والوں کو ہوتی ہے کیونکہ جب بھی کہیں پر دھماکہ ہوتا ہے تو خاندان والے یہی سمجھتے ہیں کہ اب ان کا پیارا دھماکے کی جگہ پر جا کر کوریج کرے گا اور اس کی جان کو خدشہ ہوسکتا ہے۔

رسول داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پولیس لائن دھماکے کے فوراً بعد مجھے اہلیہ نے کال کر کے خیریت دریافت کی اور میں نے صرف اتنا کہہ کر فون بند کردیا کہ بالکل خیریت سے ہوں اور ڈیوٹی پر ہوں۔‘

گذشتہ ایک دہائی میں شدت پسند کارروائیوں میں کمی ضرور واقع ہوئی تھی لیکن ایک آدھ ٹارگٹڈ حملے ہوتے رہے تھے لیکن اس کا ذہنی دباؤ اتنا نہیں ہوتا۔ تاہم اس بات سے انکار نہیں کہ پولیس لائنز دھماکے کے بعد صحافیوں کے دل میں دوبارہ وہ دل خراش یادیں تازہ ہوگئیں جب ماضی میں دھماکے روز کا معمول ہوا کرتے تھے۔

عمومی طور پر رپورٹر کے ساتھ ساتھ کسی بھی نیوز چینل کا کیمرہ مین رپورٹر سے پہلے جائے وقوعہ پر پہنچتا ہے اور کیمرے سے دھماکے کے بعد کے ہولناک مناظر ریکارڈ کرتا ہے۔

رضوان شیخ گذشتہ 20 سال سے پشاور کے ایک نجی نیوز چینل کے ساتھ بطور کیمرہ مین کام کرتے ہیں اور آرمی پبلک سکول حملے سمیت پشاور کے بڑے بڑے دھماکوں کی کوریج کر چکے ہیں۔

انہوں نے انڈپیںڈنٹ اردو کو بتایا: ’پریشانی صحافی کو ہر وقت ہوتی ہے کیونکہ ایسے مناظر دیکھنا برداشت سے باہر ہوتا ہے تاہم یہی ہماری ڈیوٹی ہے اور اس کو ملک و قوم کی خدمت سمجھتے ہیں۔‘

رضوان شیخ نے بتایا: ’ماضی میں ایسی صورت حال تھی کہ جب آفس سے نکلتے تھے تو سوچتے تھے کہ دھماکہ نہ ہوجائے، جب واپس آتے تھے تو بھی یہی خوف ہوتا تھا لیکن اب خوف ہے کہ وہی ماضی کے حالات دوبارہ شروع ہوجائیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صحافیوں کے تحفظ کے بارے میں رضوان شیخ نے کہا: ’پاکستان میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کچھ ادارے اپنے صحافیوں کو سیفٹی جیکٹ اور ہیلمٹ تک مہیا نہیں کرتے، جو ایک بین الااقوامی پریکٹس ہے اور یہ ضروری بھی ہے۔‘

رضوان شیخ نے بتایا: ’پولیس لائنز دھماکے سے لگتا ہے کہ اب دوبارہ ہمیں اس موضوع کی کوریج کرنی پڑے گی۔ ماضی میں مینا بازار میں ایک دھماکہ ہوا تھا اور میں تقریباً 20 دن ٹراما میں تھا اور کبھی سوچ رہا تھا کہ یہ فیلڈ ہی چھوڑ دو۔‘

خیبر پختونخوا میں 2021 کے مقابلے میں 2022 میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ غیر سرکاری ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹیڈیز جو سکیورٹی معاملات پر تحقیق کرتا ہے، کے مطابق 2022 میں شدت پسند حملوں میں 2021 کے مقابلے میں 27 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

اسی رپورٹ کے مطابق 2022 میں مجموعی طور پر ملک بھر میں 262 حملے ہوئے ہیں، جس میں سب سے زیادہ حملے 169 خیبر پختونخوا میں ہوئے ہیں۔

اسی طرح رپورٹ کے مطابق سب سے متاثرہ اضلاع میں جنوبی و شمالی وزیرستان میں 30 حملے، دوسرے نمبر پر زیادہ حملے لکی مروت میں 13 جبکہ تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ حملے ڈیرہ اسماعیل خان اور ضلع خیبر میں ہوئے ہیں جو ایک درجن تک ہیں۔

ملک بھر میں ہونے والے حملوں میں رپورٹ کے مطابق 419 افراد جان سے چلے گئے جو 2021 کے مقابلے میں 25 فیصد اضافہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان