خیبرپختونخوا کے مرکزی شہر پشاور کے مضافاتی علاقے سربند میں جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب ہونے والے حملے میں ڈی ایس پی سمیت تین پولیس اہلکار جان سے گئے، حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی۔
ان پولیس اہلکاروں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب یہ سربند تھانے پر ہونے والے حملے کے بعد وہاں موجود اہلکاروں کی کمک کے طور پر جائے وقوعہ پر پہنچے تھے۔
دوسری جانب وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ, وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے پشاور میں ہونے والے اس حملے کی مذمت کی ہے۔
جان سے جانے والے پولیس اہلکاروں کی شناخت ڈی ایس پی سردار حسین، کانسٹیبل ارشاد اور کانسٹیبل جہانزیب کے نام سے کی گئی ہے۔ جان سے جانے والے اہلکاروں کی نماز جنازہ پشاور میں ادا کر دی گئی۔
ایس ایس پی آپریشنز کاشف آفتاب عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ حملہ ایک منظم حملہ تھا جس میں مختلف ساخت کا اسلحہ استعمال کیا گیا اور پولیس سٹیشن پر مختلف اطراف سے حملہ کیا گیا۔‘
پشاور تھانہ حملہ:’پولیس اہلکاروں کو سنائپر سے نشانہ بنایا گیا‘
کاشف عباسی نے بتایا کہ ’حملے کے آغاز میں دستی بم استعمال کیے گئے اور شدت پسندوں نے سنائپر گن سمیت خودکار اسلحے کا استعمال بھی کیا تھا لیکن پشاور پولیس نے اس حملے کو بہادری سے پسپا کیا اور پولیس سٹیشن میں ہمیں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔‘
تاہم کاشف عباسی نے بتایا کہ ’اسی پولیس سٹیشن کی مدد کے لیے جب مختلف اطراف سے نفری روانہ کی گئی، جس میں ڈی ایس پی بڈھ بیر سردار حسین بھی شامل تھے تو پر راستے میں گھات لگائے شدت پسندوں نے ان پر حملہ کیا کر دیا۔ جس پر ڈی ایس پی سردار حسین نے ان شدت پسندوں کے گرد گھیرا ڈالنے کی کوشش کی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’تعاقب کے دوران ڈی ایس پی سردار حسین اور پولیس کے دو اہلکار جان سے گئے۔ غالباً ان کو سنائپر گن سے نشانہ بنایا گیا۔ ڈی ایس پی سمیت اہلکاروں نے شدت پسندوں کا بہادری سے مقابلہ کیا۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’آپریشن اب ختم ہوچکا ہے لیکن سرچ آپریشن جاری ہے اور اس حملے میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔‘
خیبر پختونخوا پولیس کے ایک سینئیر آفیسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شدت پسندوں کا یہ ایک نیا طریقہ ہے کہ وہ کسی پولیس سٹیشن پر حملہ کرتے ہیں، تو پروٹوکول کے مطابق اس تھانے کے لیے پولیس کی مزید نفری بھیجے جاتی ہے۔‘
’جو نفری مدد کے لیے جاتی ہے وہ سمجھتی ہے کہ شدت پسند صرف تھانے پر حملے میں مصروف ہیں لیکن راستے میں دیگر شدت پسند گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں اور اس نفری کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہی طریقہ واردات پشاور حملے میں اختیار کیا گیا ہے۔‘
پولیس عہدیدار نے بتایا کہ ’اس طرح کے ایک حملے کا ہمیں گذشتہ دنوں بھی سامنا کرنا پڑا تھا جب ہمارے ایک پولیس سٹیشن پر حملہ ہوا تھا لیکن ہم نے مزید نفری تب تک نہیں بھیجی جب تک ہم نے تھانے کے اطراف کو کلیئر نہیں کیا اور اس کے بعد ہم مدد کے لیے پہنچے۔‘
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کے جان سے جانے پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔
’پوری قوم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے اس ناسور کا جلد جڑ سے خاتمہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ کچھ ہفتوں کے دوران خیبر پختونخوا میں پولیس اہلکاروں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملوں میں تیزی آئی ہے۔ ان میں سے بیشتر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔
گذشتہ رات ہی جنوبی پنجاب کے شہر تونسہ شریف میں ایک پولیس چوکی پر ہونے والے حملے میں چوکی انچارج اور ایک شہری چل بسے۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہٰی نے جھنگی پولیس چوکی پر ہونے والے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس واقعے کی رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔
پچھلے سال مذاکرات کا ایک دور چلا تھا جس میں پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی نے فائر بندی کا اعلان بھی کیا تھا لیکن یہ مذاکرات بعد میں تب ناکام ہوگئے جب ٹی ٹی پی نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت پاکستان مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔
تاہم حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ بیرسٹر محمد علی سیف نے اس وقت انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’مذاکرات کے حوالے سے حکومت ہمیشہ سنجیدہ رہی ہے اور ٹی ٹی پی کی جانب سے فائربندی ختم کرنے کا اعلان فسوس ناک ہے۔‘
ملک میں سکیورٹی صورت حال کے حوالے سے گذشتہ دنوں قومی سلامتی کمیٹی کے ایک اجلاس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ ’شدت پسندوں کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہیں کی جائے گی‘ اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ ’شدت پسندوں سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہو گی۔‘