صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حالیہ حملوں کے تناظر میں شہر کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس جاوید عالم اوڈھو کا کہنا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، تاہم انہیں 24 گھنٹے سکیورٹی نہیں دی جاتی ہے۔
جاوید عالم اوڈھو نے انڈپینڈنٹ اردو سے میں انہوں نے کہا کہ احمدیوں کی عبادت گاہوں پر عبادت کے لیے مخصوص اوقات میں سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔
گذشتہ دنوں کراچی میں احمدیوں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے دو واقعات رونما ہوئے ہیں جبکہ ہفتے کو میر پور خاص میں بھی احمدیوں کی ایک عبادت گاہ پر مبینہ طور پر فائرنگ کا واقع پیش آیا۔
اس کے علاوہ گذشتہ ہفتے تین فروری کو سندھ میں احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کے دو واقعات پیش آئے، جن میں ضلع عمر کوٹ کے علاقے نور نگر میں نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر احمدیوں کی عبادت گاہ کو آگ لگا دی، جبکہ اسی رات ضلع میر پور خاص میں انہی کی ایک اور عبادت گاہ کے مینار مبینہ طور پر مسمار کر دیے گئے۔
اس سے ایک دن قبل (جمعرات) کو کراچی صدر میں واقع ’احمدیہ ہال‘ کے بھی مینار مبینہ طور پر توڑ دیے گئے، جبکہ 18 جنوری کو کراچی میں ہی مارٹن روڈ پر بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔
اس حوالے سے کراچی کے اے آئی جی جاوید عالم اوڈھو کا کہنا ہے کہ پولیس کراچی میں احمدیوں کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں سے متعلق ضروری قانونی کارروائی کے نتیجے میں جلد گرفتاریاں کرنے کی کوشش کرے گی۔
ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ ’احمدیوں کی عبادت گاہوں پر مینار کی موجودگی سے اس عمارت پر مسجد ہونے کا شبہہ ہوتا ہے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔‘
ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو نے بتایا کہ ’21 نومبر کو پہلا کیس کچھ وکلا کی جانب سے سٹی کورٹ پی ایس میں داخل کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں درج تھا کہ احمدیوں کی جانب سے مسلمان علما اور مساجد کی توہین کی گئی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’ہو سکتا ہے شروعات یہیں سے ہوئی ہو اور اس کے بعد پہلا واقع مارٹن کوارٹر میں مں عبادت گاہو ں کو نقصان پہنچانے کا سامنے آیا جہاں عبادت گاہ کے مینار توڑے گئے۔‘
دوسری جانب جماعت احمدیہ کے ترجمان عامر محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کے خلاف ’نفرت انگیز مہم‘ چلانے کا الزام لگاتے ہوئے قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’سندھ اور پنجاب میں ان کی عبادت گاہوں پر حملوں اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز واقعات کی تشہیر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔‘
عامر محمود کا کہنا تھا کہ رواں سال کے دوران ملک میں ’ان کی عبادت گاہوں پر حملوں کے پانچ واقعات پیش آ چکے ہیں، جبکہ گذشتہ پورے سال کے دوران یہ تعداد چھ رہی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’2014 میں چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے ایک ٹاسک فورس بنانے کی ہدایت کی تھی جس پر ابھی تک عمل نہیں ہو سکا ہے۔‘