سفید دستانے پہنے خواتین چاندی کے برتنوں میں چاکلیٹ اور کیک سجا رہی ہیں۔ شیشے کے گلدانوں میں پھول بھرے جا رہے ہیں اور مہمانوں کی آمد شروع ہو چکی ہے۔ ماریانا کو انہی لمحات کے لیے خوبصورتی انداز میں تیار کیا گیا تھا۔ اب وہ اپنے آپریشن کے لیے تیار ہیں۔ پیدائش کے لیے رائج سی سیکشن برازیل والوں کے لیے ایک میلے میں تبدیل ہو چکا ہے۔
28 سالہ ماریانا کسمالہ (جو پیشے کے لحاظ سے ایک ڈینٹل سرجن ہیں) تیزی سے پلکیں جھپکتے ہوئے کہتی ہیں : ’یہ میرے لیے ایک بہت خاص موقع ہے۔ ہم جیسے پارٹیوں اور خاص ملاقاتوں کے لیے تیار ہوتے ہیں یہ بالکل ویسا ہی ہے۔‘
سیزیرین یا وضع حمل کا آپریشن جو ایک غیر فطری لیکن سائنسی طریقہ ہے، برازیل میں بلند رتبے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ امیر گھرانوں کی خواتین کے لیے حمل کی غیر یقینی صورتحال سے بچنے کا ایک آسان حل ہے۔
برازیل دنیا بھر میں سیزیرین کے حوالے سے سب سے بلند شرح رکھتا ہے۔ برازیل میں ہونے والے 55.5 فیصد وضع حمل میں عمومی طور پر سیزیرین کا طریقہ ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ جبکہ نجی ہسپتالوں میں یہ شرح 84 فیصد تک جا چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار وزارت صحت کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں۔ امریکہ میں تمام ہسپتالوں کے لیے یہ شرح 32.9 فیصد جبکہ برطانیہ میں 29 فیصد ہے۔
یہ رجحان تقریبات کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد میں دلچسپی کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے علاوہ میک اپ آرٹسٹ اور کھانے پکانے کی کمپنیاں بھی اس میں اپنے کاروبار کی ترقی کے لیے موقعے کی تاک میں ہیں۔
پیدائش کا عمل بھی ایک گیلری میں موجود رشتہ داروں اور دوستوں کی جانب سے براہ راست ملاحظہ کیا جاتا ہے۔ یہ گیلری اسی مقصد کے لیے تعمیر کی گئی ہے۔
ساوپاولو کے ساو لویز ہسپتال کے ایک کمرے میں عنقریب ماں بننے والے ایک خاتون اپنے بال اور میک اپ درست کروانے کی سہولت رکھتی ہے۔ اور ایسا فقط 2000 ری ایز ( برازیلی کرنسی) یا 200 برطانوی پاونڈز میں ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کا خاندان اس کے لیے ایک صدارتی سویٹ بھی بک کرا سکتا ہے۔ اس میں مہمانوں کے لیے لیونگ روم اور بیت الخلا بھی شامل ہیں۔ بالکونی اور چھوٹا سا بار اس کے علاوہ ہیں۔ حاملہ مائیں اپنے لیے پھول اور میگزین بھی منگوا سکتی ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے فرنیچر بھی تبدیل کر سکتی ہیں۔ ایک بائیس منزلہ میٹرنٹی وارڈ جو ابھی زیر تعمیر ہے اس میں شراب خانہ اور بال روم بھی شامل ہو گا۔
ہسپتال کے ڈائریکٹر مرسیا ڈاکوسٹا کے مطابق :’ یہ برازیل کی روایت ہے۔ برازیلی ہر چیز کو پلان کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہسپتال جاتے ہوئے ٹریفک میں نہیں پھنسنا چاہتے۔ وہ اپنے ناخن تراش کر، مکمل طور پر تیار ہو کر ہر تقریب میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔‘
گو کہ ڈا کوسٹا اور باقی ماہرین صحت ابھی تک تذبذب کا شکار ہیں۔ عالمی ادارہ صحت ایک لمبے عرصے سے اختیاری سی سیکشن کے شرح کو کم کرنے کے لیے مہم چلا رہی ہے۔ یہ ماں کے لیے فطری طور پر پیدائش سے دگنا خطرناک ہے اور ماں اور بچے دونوں اس کے اثرات کے ایک لمبے عرصے تک شکار رہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برازیل وزارت صحت کے حکام اور ملک کے کئی صف اول کے معالجین اشرافیہ میں اس رجحان کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لاگت میں فرق ہو سکتا ہے لیکن سی سیکشن عام طور پر قدری طریقہ پیدائش کے مقابلے میں زیادہ مہنگے ہیں۔ ایک سہولیات سے آراستہ ہسپتال میں گو کہ دوران پیدائش اموات کے خطرات کم ہیں لیکن ہیمرج اور انفیکشن کی وجہ سے سیزیرین فطری طریقہ پیدائش سے زیادہ خطرناک ہے۔ بچوں کے لیے سی سیکشن سانس لینے میں دشواری، ذیابیطس اور بلند فشار خون جیسے امراض کا باعث بن سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق تقریبا 10 فیصد حمل کے کیسوں میں سی سیکشن کی ضرورت ہوتی ہے۔
برازیل کی قومی ہیلتھ ایجنسی کے ڈائریکٹر روڈریگو ایگوار کے مطابق یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ چھٹیوں کے مہینوں کے دوران یہ تعداد اور بڑھ جاتی ہے۔ اس دوران خواتین اور ڈاکٹرز کی جانب سے سی سیکشن پر اتفاق کر لیا جاتا ہے چاہے بچہ پیدائش کے لیے مکمل طور پر تیار ہو یا نہیں۔ یہ بچوں میں سانس کے مسائل کے ساتھ ساتھ ماں اور بچے دونوں کے لیے ہسپتال میں لمبے عرصے تک رہنے کی وجہ بھی بنتے ہیں۔
ایگوار کہتے ہیں کہ :’ ہم نے یہ دیکھ کر اپنے معیار دوبارہ مقرر کیے ہیں تاکہ پیدائش کے وقت ماں اور بچے دونوں کی صحت کو ترجیح بنایا جا سکےنہ کہ آسانی تلاش کی جائے۔‘
برازیل کی وزارت صحت نے سیزیرین کی ’وبا‘ کو کم کرنے لیے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔ 2016 میں حکومت نے حمل کے 39 ہفتوں سے پہلے سی سیکشن کرانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
تاریخی طور پر برازیلی خواتین کے پاس فطری طریقہ پیدائش سے ڈرنے کا مناسب جواز موجود ہے۔ پہلے سے بوجھ کا شکار ملکی نظام صحت حاملہ ماوں پر زیادہ وقت تک توجہ دینے کے لیے ڈاکٹروں اور نرسوں کو مزید سہولیات دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جبکہ سی سیکشن میں انہیں ایسا بہت کم وقت کے لیے کرنا پڑتا ہے۔
نجی ہسپتالوں میں اس طریقہ پیدائش نے دو طرفہ فائدہ دیا ہے۔ ایک طرف مائیں سرکاری ہسپتال کی ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کے بجاے اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے ڈیلیوری کروا سکتی ہیں جبکہ دوسری جانب ڈاکٹر بھی اپنے مصروف شیڈول سے تنگ ہیں اور اسے آسان سمجھتے ہیں۔
برازیلین فیڈریشن آف اوبسٹیٹرکس اینڈ گائناکالوجی کے صدر اولمپیو ڈی مورس فلہو کہتے ہیں کہ سی سیکشن ایک طرز زندگی کے عین مطابق ہیں۔ سی سیکشن تیس سال پہلے کے مقابلے میں آج زیادہ محفوظ ہیں۔ وقت بدل رہا ہے۔ خواتین نوکری کرتی ہیں اور شادی شدہ افراد ان لمحوں کا انتظار کرتے ہیں جب وہ ایک ساتھ وقت گزار سکیں۔
ساوپاولو کے البرٹ آئن سٹائن ہسپتال میں بچے کی پیدائش سے بھی پہلے پارٹی شروع ہو جاتی ہے۔
آپریشن روم میں دیکھے جانے والی ایک منجمد کھڑکی سرجری کے مناظر دکھانے کے لیے ٹرانسپیرنٹ شیشے میں تبدیل ہو جاتی ہے جو مہمانوں کو پیدائش کے مناظر دیکھنے کا مجاز کرتی ہے۔
جب ماریانا کسمالہ ویل چئیر پر آپریشن روم میں لائی جاتی ہیں تو ان کے خاندان کے 15 افراد ان کے پیچھے قطار بنائے چلے آتے ہیں۔ وہ کھڑکی کے پاس جمع ہو جاتے ہیں اور اپنے کان کھڑکی پار سے آنے والے بچے کی پہلی آواز پر مرکوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ڈاکٹر نوزائیدہ لورینا کو کسمالہ کے بطن سے نکالتا ہے تو کھڑکی ٹرانسپیرنٹ ہو جاتی ہے اور کسمالہ شائقین کو کھڑے انگوٹھے دکھا کر جیت کا نشان بناتی ہے۔
کسمالہ کی ساس مریسول آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ یہ منظر دیکھتے ہی کہتی ہیں: یہ اس دنیا میں آچکی ہے۔ فیس ٹائم پر موجود رشتہ دار بچے کو قریب سے دکھانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ سٹوڈیو ماترے کی شریک بانی پاولا برکات میٹرنٹی وارڈز میں تقریبات منعقد کرنے کی خدمات مہیا کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ : بچے کو جنم دینے والی ماں فوری طور پر رشتہ داروں کو گھر کے بجائے ہسپتال میں ملنے کو ترجیح دیتی ہے۔ باراکات کہتی ہیں : ماں ابھی بچے کو دودھ پلانا سیکھ رہی ہوتی ہے، اس نے ابھی بچے کو جنم دیا ہے وہ یقینی طور پر کسی کو گھر پہ نہیں ملنا چاہے گی۔ جب وہ بچے کو جنم دینے لیے تیار ہو رہی ہے اس وقت ہم پارٹی کے لیے تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔
باراکات کے کلائنٹس ان کی خدمات کے عوض دس ہزار ڈالرز تک کی ادائیگی کرتے ہیں۔ وہ پھولوں کے ساتھ رنگین چادریں، انفرادی ترجیح کے مطابق پانی کی بوتلیں اور مہمانوں کے لیے چاندی کے ورق میں پوشیدہ تحفے بھی فراہم کرتی ہیں۔
بعض اوقات فطری طور پر جنم دینے والی خواتین بھی ان کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔ نینا میترنا بھی ایک خدمات فراہم کرنے والی کمپنی چلاتی ہیں۔ ان کی کمپنی کے تین ہاٹ لائن نمبر ہیں جو خواتین لیبر میں جانے سے پہلے استعمال کر سکتی ہیں۔ ان کی کمپنی جراثیم سے پاک مصنوعات آٹھ گھنٹے کے اندر فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن سی سیکشن ماوں کو اس سے زیادہ تیاری کی مہلت دیتا ہے۔
2015 میں لینوس پاولنگ فاسکینا نے ڈاکٹر، نرسوں، دائیوں اور سرگرم خواتین کو آئن سٹائن ہسپتال دعوت دی۔ اس موقع پر حکام بھی موجود تھے۔ اس ملاقات کا مقصد برازیل کے نجی ہسپتالوں میں فطری طریقہ پیدائش کو فروغ دینا تھا۔ فاسکینا آئن سٹائن ہسپتال کے میٹرنٹی وارڈ کے ڈائریکٹر ہیں۔
اس گروپ کی جانب سے ’ایپروپریٹ برتھ پروجیکٹ‘ کے نام سے ایک پروگرام بھی شروع کیا گیا جس کا مقصد نجی ہسپتالوں میں فطری طریقہ پیدائش کو فروغ دینا تھا۔ اس سلسلے میں 35 ہسپتالوں سے شراکت داری بھی قائم کی گئی۔
ان کا پہلا اقدام ہسپتالوں میں فطری پیدائش کے لیے بھی سیزیرین جتنی سہولیات دینے کا فیصلہ تھا۔ آئن سٹائن ہسپتال نے 5 نئے فطری پیدائش سینٹرز قائم کیے جہاں نجی ٹب اور شاور کی سہولت موجود ہے۔ چھت پہ لگی روشنیاں نیلے اور سرخ رنگ میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ اور ایسا مریض کے مزاج کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ تمام کمروں میں ایم پی تھری کی سہولت بھی دی گئی ہے تاکہ مریض من پسند موسیقی سے لطف اندوز ہو سکیں۔
چار سال کی قلیل مدت میں سامنے آنے والے نتائج کے مطابق آئن سٹائن ہسپتال میں فطری پیدائش کی شرح 18 فیصد سے بڑھ کے 50 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد اس منصوبے کو 200 ہسپتالوں تک پھیلا دیا گیا۔
فاسکینا کے مطابق ہر ایک کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ خواتین، خاندان والے، نوکری ، ڈاکٹر، نرسوں سے مختلف قسم کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں۔ جب شوہر آتے ہیں تو وہ پیدائش کی تاریخ جاننا چاہتے ہیں۔ یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ پہلے سے اس کی تیاری کی جا سکے۔
32 سالہ برونا وئیرا کے مطابق ایک فطری پیدائش کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ وہ کہتی ہیں :یہ ہماری طرز زندگی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ میں ایک ڈاکٹر ہوں اور میرے شوہر بھی ڈاکٹر ہیں۔ ہم ایک منظم اور مصروف زندگی گزار رہے ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ بچے کی پیدائش کے لیے چھٹیاں لے لی جائیں۔ ویئرا نے ہفتوں صرف اس بات کی تیاری میں گزار دیے کہ ساو لویز میں ان کے میٹرنٹی روم میں کون سے مشروبات اور سجاوٹ کا سامان موجود ہو گا۔ جب ان کا بچہ آرتھر پیدا ہوا تو ان کا کمرا پہلے نیلے اور سفید غباروں سے سجا ہوا تھا۔ فریج میں رم کے ڈھیر لگے تھے اور ان کے پرتعیش کمرے کا میز قیمتی پودوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ کم سے کم مہمانوں کی جانب سے 80 تحائف کی امید لگائے بیٹھی تھیں۔
وہ کہتی ہیں : مجھے یہ بہت پسند ہے۔ آپ لوگوں کے دل میں موجود محبت کو محسوس کر سکتے ہیں۔ کچھ مائیں بچے کو جنم دینے کے بعد بیگانگی اور شدید ذہنی دباو کا شکار ہو جاتی ہیں۔ آپ کے ہارمونز بہت زیادہ فعال ہوتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگوں کے درمیان موجود ہونا جو آپ سے محبت کرتے ہیں یہ بہت ہی خاص احساس ہے۔‘
جب ان کی ماں کی پانچ چھ دوستیں ان کے بچے کو دیکھ رہی تھیں تو ان کا شوہر شراب کی بوتل کھول رہا تھا۔ دادی لوسی میری وئیرا آرتھر کو باہوں میں جھلا رہی ہیں اور ان کے ایک ہاتھ میں مشروب کا گلاس ہے۔ ساتھ ساتھ وہ بچے سے مخاطب ہو کر کہہ رہی ہیں :’ تم دیکھ رہے ہو نا بچے، زندگی ایک جشن ہے۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دی انڈپینڈنٹ پر یہ خبر واشنگٹن پوسٹ کے تعاون سے شائع ہوئی۔
© The Independent