ایک زمانہ تھا کہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کا تقریباً چھ مہینے تک باقی پاکستان سے رابطہ منقطع رہتا تھا اور اس کی وجہ موسم سرما میں لواری ٹنل پر ہونے والی شدید برف باری تھی۔
یہ 2009 سے پہلے کا زمانہ تھا۔ اس دوران چترال کے لوگوں کو سبزی اور دیگر اشیائے خوردونوش یا تو بازاروں میں نہیں ملتی تھیں اور اگر کہیں ملتی بھی تھیں تو ان کی قیمت آسمان سے باتیں کرتی تھیں۔
اشیائے خورد نوش کی قلت سے بچنے کے لیے سبزیوں کو گرمی میں خشک کر کے رکھا جاتا تھا اور ان ہی کو سردیوں میں استعمال کیا جاتا تھا جبکہ چترال کا باقی ملک سے رابطہ منقطع ہونے کے بعد لوگ افغانستان، باجوڑ اور دیگر راستوں سے ضروری کام کے لیے پشاور اور ملک کے دیگر حصوں میں جاتے تھے۔
منظور علی کا تعلق چترال سے ہے اور وہ پشاور میں انگریزی اخبار ڈان سے وابستہ ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سابق ڈکٹیٹر اور پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے انتخابات کے لیے چترال کا انتخاب کیوں تھا اور وہاں پر وہ اتنے مقبول کیوں تھے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک بڑی وجہ لواری ٹنل پر دوبارہ کام کا آغاز کرنا تھا۔
منظور نے بتایا: ’لواری ٹنل چترال کے لوگوں کے لیے لائف لائن تھی اور سردیوں میں بند ہونے کے بعد لوگ اسی ٹنل کے اوپر سے گزرتے تھے اور سالانہ 20 تک اموات واقع ہوتی تھیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ سردیوں میں جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو اسے کسی شہر کے ہسپتال میں لانا ناممکن تھا کیونکہ لواری ٹنل برف باری کی وجہ سے بند ہوتی تھی اوراس کے علاوہ واحد راستہ افغانستان یا بذریعہ باجوڑ ہوتا تھا جو گھنٹوں نہیں بلکہ دنوں میں طے ہوتا تھا۔
منظور نے بتایا: ’پرویز مشرف کے آنے کے بعد لواری ٹنل پر دوبارہ کام کا آغاز کیا گیا اور ان ہی کے دور میں اسے عام ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ اس وقت ٹنل کو باقاعدہ طور پر مکمل نہیں کیا گیا تھا لیکن اتنا ممکن ہوا کہ گاڑیاں اس میں سے گزرتی تھیں اور یہی ٹنل مشرف کی چترال میں مقبولیت کی وجہ بن گئی۔‘
انہوں نے بتایا کہ لواری ٹنل منصوبے پر کام کا آغاز 70 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو نے کیا تھا، تاہم اس کے بعد اس پر کام دوبارہ بند کیا گیا تھا اور یہ پرویز مشرف ہی تھے جنہوں نے 2005 میں اس منصوبے میں پر دوبارہ کام کا آغاز کیا اور 2009 میں ٹنل کو عارضی طور کھول دیا گیا۔
منظور کے مطابق 2009 کے بعد ہی چترال کے لوگوں نے سردیوں میں بازاروں میں تازہ سبزیاں دیکھنا شروع کی تھیں کیونکہ ٹنل کھولنے کے بعد سبزیاں شہر سے براستہ اس سرنگ کے آتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ بعد میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے ٹنل کے لیے کافی فنڈ مختص کیے تھے اور یہ نواز شریف ہی کا دور تھا کہ ٹنل کو باقاعدہ طور پر مکمل کیا گیا اور وہ اس کے افتتاح کے لیے بھی آئے تھے۔
بقول منظور: ’چترال کے لوگوں کا مشرف کے دیگر سیاسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں تھا، بلکہ چترال کے لوگوں کی لائف لائن لواری ٹنل ہی تھی اور یہ تحفہ مشرف نے چترال کے عوام کو دیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پرویز مشرف کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ سے پہلے، چترال پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا اور اس کی وجہ بھی دلچسپ ہے کہ اسی ٹنل کے نہ ہونے کی وجہ سے 1966 میں چترال میں قحط سالی آئی تھی اور ذوالقفار علی بھٹو کی ہدایت پر اس وقت چترال میں جہاز سے جانوروں کے لیے چارا پھینکا گیا تھا۔
منظور نے بتایا: ’اسی وجہ سے چترال کے بزرگ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کو یاد کرتے ہیں اور اس کے بعد لواری ٹنل پر دوبارہ کام کا آغاز کرنے کی وجہ سے مشرف کو یاد کیا جاتا ہے۔‘
منظور کے مطابق مشرف کی جماعت سے پہلا رکن قومی اسمبلی چترال ہی سے تھا لیکن موجودہ صورت حال میں چترال میں پرویز مشرف کی پارٹی اب نہ ہونے کے برابر ہے۔
انہوں نے بتایا: ’چترال سے آل پاکستان مسلم لیگ کے رکن قومی اسمبلی نے 2018 کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرلی ہے جبکہ اب چترال میں مشرف کی پارٹی کا کوئی سرکردہ رہنما موجود نہیں ہے لیکن مشرف کو وہاں کے مقامی افراد اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبدالولی پشاور ہائی کورٹ کے وکیل ہیں اور لواری ٹنل پر دوبارہ آغاز کے وقت وہ اس علاقے میں یونین کونسل کے ناظم تھے اور پرویز مشرف کے ساتھ کئی مرتبہ ملاقات کرچکے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چترال کے لوگوں کو لواری ٹنل کے تحفے کے علاوہ مشرف کی آزادانہ سوچ سے بھی پیار تھا۔
عبدالولی نے بتایا: ’چترال کی آبادی کا تقریباً 30 فیصد اسماعیلی کمیونٹی پر مشتمل ہے، جو لبرل سوچ رکھنے والے لوگ ہیں اور پرویز مشرف کے لبرل خیالات اسماعیلی کمیونٹی میں بہت مقبول تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب بھی مشرف چترال آتے تھے، تو عوام کے ساتھ گھل مل کر کبھی کبھار رقص بھی کرتے تھے۔ ’میں نے کئی مرتبہ ان سے ملاقاتیں کی ہیں اور میں نے مشرف کو بات کا پکا پایا تھا کہ جو کہتے تھے، وہ کرتے بھی تھے۔‘
لواری ٹنل کے حوالے سے عبدالولی نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرف نے لواری ٹنل پر کام کا آغاز کیا تھا اور اس پر تقریباً دو ارب روپے خرچ کیے تھے، لیکن ٹنل کو مکمل کرنے میں نواز شریف نے بھی کردارادا کیا تھا اور نواز شریف کے دور حکومت میں ٹنل پر تقریباً 28 ارب روپے لگائے گئے تھے۔
تاہم مشرف کی پارٹی اب چترال میں تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ عبدالولی نے بتایا کہ چترال میں اب آل پاکستان مسلم لیگ کا وجود نہیں ہے کیونکہ اسی پارٹی کے 2013 میں رکن صوبائی اسمبلی اب دوسری پارٹی میں جا چکے ہیں جبکہ پارٹی کے پہلے رکن قومی اسمبلی افتخارالدین اب پاکستان مسلم لیگ کا حصہ ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے چترال سے آل پاکستان مسلم لیگ کے پہلے رکن قومی اسمبلی افتخارالدین سے رابطہ کیا، تاہم ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔