جنوبی افریقہ میں جمعے سے شروع ہونے والے آٹھویں آئی سی سی ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کا آغاز تو میزبان ٹیم اور سری لنکا کے درمیان میچ سے ہوگیا ہے تاہم پاکستان ویمنز ٹیم اتوار کو کیپ ٹاؤن میں بھارت کے خلاف اپنا پہلا گروپ میچ کھیلے گی۔
پاکستان ویمنز ٹیم جو اس ورلڈ کپ سے پہلے آسٹریلیا کا دورہ کرچکی ہے جہاں اسے تمام میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان شکستوں نے ٹیم کی بھرپور تیاری کی قلعی کھول دی تھی۔
پاکستان ویمنز ٹیم نے اپنے قیام سے اب تک 144 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے ہیں جن میں 58 جیتے ہیں جبکہ 79 میچوں میں شکست ہوئی ہے۔
پاکستان ویمنز ٹیم کی زیادہ تر فتوحات چھوٹی ٹیموں کے خلاف ہیں جبکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف کوئی جیت نہیں ہے اور انگلینڈ کے خلاف صرف ایک بار جیت سکی ہے۔ انڈیا سے بھی آج تک صرف تین بار ہی فتح مقدر بنی ہے۔
پاکستان ویمنز ٹیم کا آئی سی سی ورلڈکپ میں بھی ریکارڈ متاثر کن نہیں رہا۔ پاکستانی ٹیم کبھی بھی فائنلز تک نہیں پہنچ سکی ہے۔
جنوبی افریقہ میں موجودہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم ان ہی کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جو آسٹریلیا کا ناکام دورہ کر چکی ہیں۔
ٹیم کے ارباب اختیار نے بد ترین کارکردگی کے باوجود کوئ تبدیلی نہیں کی اور نہ کسی کھلاڑی کی کارکردگی کو مانیٹر کیا ہے۔
پاکستان ٹیم گروپ بی میں شامل ہے جس میں انگلینڈ، انڈیا، آئرلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں شامل ہیں۔
اس سے قبل آخری ورلڈکپ آسٹریلیا میں کھیلا گیا تھا جس میں میزبان ملک آسٹریلیا نے پانچویں مرتبہ عالمی چیمپئین بننے کا اعزازحاصل کیا تھا۔
اس ورلڈکپ کی رنرز اپ ٹیم انڈیا اب پاکستان کے گروپ میں شامل ہے اور موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انڈیا کے ایک بار پھرفائنل تک پہنچنے کے امکانات ہیں۔
پاکستان کی ٹیم کی قیادت بسمہ معروف کے ہاتھ میں ہے لیکن ان کی اپنی ذاتی کارکردگی کسی بھی طرح ان کے ٹیم میں رہنے کا جواز نہیں رکھتی۔ وہ گذشتہ 10 انٹرنیشل میچوں میں ایک بھی نصف سنچری سکور نہیں کرسکی ہیں۔
حالانکہ ٹیم مینیجمنٹ انہیں ٹیم کاسب قابل اعتماد بیٹر سمجھتی ہے۔ گذشتہ 17 سال سے ٹیم کی رکن ہونے کے باوجود وہ کوئی ایک بھی قابل ذکر اننگ نہیں کھیل سکی ہیں۔
پاکستان کی دوسری سب سے سینیئر کھلاڑی ندا ڈار ہیں جو ایک اچھی آل راؤنڈر ہیں اور نمایاں آف بریک بولر ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی میں اب تک 121 وکٹیں لے چکی ہیں لیکن وہ بڑی ٹیموں کے خلاف موثر نہیں رہتی ہیں۔ طویل عرصے سے ٹیم کے ساتھ رہنے کے باوجود وہ فتح گر نہیں بن سکی ہیں۔
ٹیم کی دوسری اہم کھلاڑیوں میں منیبہ علی اور سدرہ امین ہیں۔ دونوں ایک روزہ میچوں میں سنچری بناچکی ہیں لیکن اہم مواقع پردونوں ناکام رہتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آسٹریلیا کادورہ دونوں کے لیے ناکام ترین رہا تھا۔ مڈل آرڈر میں جویریہ خان بھی ہیں لیکن ان کی کارکردگی بھی کافی عرصے سے قابل ذکر نہیں ہے۔
پاکستان ٹیم کی بیٹنگ خاصی کمزور دکھائی دیتی ہے۔
بولنگ میں ندا ڈار اور فاطمہ ثنا قابل ذکر ہیں۔ فاطمہ ثنا آئی سی سی امرجنگ ایوارڈ حاصل کرچکی ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ وہ طویل عرصے کھیل سکتی ہیں۔
عالیہ ریاض اور ایمن انور تیز بولنگ کرتی ہیں دونوں کے پاس اگرچہ کافی تجربہ ہے لیکن کبھی بھی کوئی بڑی کارکردگی نہیں دکھا سکی ہیں۔
اس کے برعکس انڈیا کی ٹیم مضبوط بھی ہے اور جارحانہ انداز سے کھیلتی ہے۔ کپتان ہرمن پریت کور، شفالی ورما، سمرتی مندانا اور انجلی دیول خطرناک بیٹرز ہیں جبکہ رینوکا سنگھ، راجیشوری گائیکواڈ اور دیپتی شرما عمدہ بولرز ہیں۔
پاکستان ٹیم کے گروپ میں انگلینڈ دوسری مشکل ٹیم ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم اچھی فارم میں ہے اور اس کا مقابلہ بھی آسان نہیں ہوگا۔
پاکستان ویمنز ٹیم کے لیے ورلڈکپ آسان نہیں ہوگا۔
ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان ویمنز ٹیم میں چیک اور بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے کھلاڑی گروپنگ کا شکار ہیں اور دو سابق کپتان اپنی پسندیدہ کھلاڑیوں کو منتخب کرانا چاہتی ہیں۔