اسلام آباد کے سیکٹر آئی ایٹ کے مرکز میں ایک خالی پلاٹ میں بنائی گئی ایک دکان سے آپ موٹر سائیکل اور ان کے پارٹس خرید سکتے ہیں، لیکن یہ سامان وزن کے حساب سے فروخت کیا جا رہا ہے۔
یہاں آپ پوری موٹر سائیکل یا اس کا کوئی بھی حصہ وزن کے حساب سے خرید سکتے ہیں اور نرخ ہے 140 سے 400 فی کلو۔
اس کاروبار کے مالک ظاہر خان کے مطابق انہوں نے تقریباً پانچ ہزار پرانی موٹر سائیکلیں جنوری میں اسلام آباد پولیس کی ایک نیلامی میں آٹھ کروڑ 29 لاکھ روپے میں خریدی تھیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ظاہر خان نے بتایا کہ اخبار میں اشتہار دیکھ کر انہوں نے اس نیلامی کے لیے کاغذات جمع کروائے تھے۔
انہوں نے بتایا: ’میں خوش قسمت تھا کہ میں نے یہ نیلامی جیتی۔‘
نیلامی میں انہیں پانچ ہزار 635 موٹرسائیکلیں ملیں جن میں سے آدھوں کو انہوں نے کھول کر الگ الگ پارٹس میں تبدیل کر دیا۔
ظاہر خان سے پرانی موٹرسائیکلوں کے پارٹس خریدنے کے لیے ملک بھر سے گاہک آ رہے ہیں، جن میں مکینکس اور بائیک چلانے کے شوقین بھی شامل ہیں۔
ظاہر خان کا کہنا تھا کہ وہ موجودہ معاشی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے قابل استعمال پارٹس جن میں انجن، شاکس اور ٹائر وغیرہ شامل ہیں، 400 روپے فی کلو میں فروخت کر رہے ہیں، جبکہ خراب سامان سکریپ کے طور پر 150 روپے فی کلو میں بیچا جا رہا ہے۔
اس دکان میں موٹر سائیکل کی سیٹ اور پیٹرول ٹینک سات سو روپے میں دستیاب ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک موٹر سائیکل میں وزن کے حساب سے تقریباً 30 کلو پارٹس نکلتے ہیں، جبکہ 45 سے 50 کلو دوسرا لوہا ہوتا ہے۔
ظاہر نے بتایا کہ نیلامی کے وقت ان سے حلف نامہ لیا گیا تھا کہ سالم موٹر سائیکل فروخت نہیں کی جائے گی اور اسی لیے وہ یہ کاروبار محکمہ ایکسائز اسلام آباد کی نگرانی میں کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ان موٹر سائیکلوں کے انجن اور چیسس نمبر کاٹ کر محکمہ ایکسائز کے حکام کے حوالے کیے جاتے ہیں۔‘
ظاہر نے بتایا کہ ان کی دکان پر آنے والوں میں سے کم ہی خریدار ہوتے ہیں، جبکہ کچھ چوری کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ’اسی لیے ہم نے نگرانی کے لیے 80 افراد رکھے ہوئے ہیں، جو سامان کی حفاظت کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی دکان پر ڈیلیوری بوائز یا دوسرے کم آمدنی والوں کو رعایت بھی دی جاتی ہے۔
ظاہر خان کے مطابق یہ موٹر سائیکلیں پولیس نے مختلف وارداتوں میں برآمد کی تھیں اور گذشتہ کئی برس سے مختلف تھانوں میں لاوارث کھڑی تھیں۔
’پولیس نے ان موٹر سائیکلوں کے مالکان کو ڈھونڈنے کی خاطر اشتہارات بھی دیے لیکن کوئی نہیں آیا، اس لیے ان ہزاروں موٹر سائیکلوں کو نیلام کر دیا گیا۔‘