بلوچستان کے شہر تربت میں ایک تعلیمی ادارے کے تحت کتب میلے کا انعقاد ہوا، جس کے بارے میں منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ میلہ ’لاکھوں‘ کی تعداد میں کتابوں کی فروخت کا باعث بھی بنا۔
بلوچستان اکیڈمی آف لٹریچر اینڈ ریسرچ کے زیراہتمام ایک ادبی، ثقافتی اور علمی فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف مکتب فکرسے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔
بلوچستان اکیڈمی کے چیئرمین غفور شاد کہتے ہیں کہ یہ اس علاقے میں اپنی نوعیت کا پہلا فیسٹیول تھا، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے توقع سے بڑھ کر شرکت کی اورریکارڈ تعداد میں کتب کی خریداری کی۔
ان کے خیال میں یہ تعداد ’تقریباً 35 لاکھ کے قریب رہی جواس سے پہلے نہیں ہوا۔‘
اس پروگرام کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں ادبی شخصیات کے علاوہ ماہر معاشیات، گلوکاروں، دانشوروں سمیت سیاسی رہنماؤں نے بھی شرکت کی، اس کے علاوہ کتب میلہ، ثقافتی سٹال، فن پاروں کی نمائش، میوزیکل نائٹ اور مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔
غفور شاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا یہ پروگرام ضلع کیچ میں ایک نئی طرز کے فیسٹیول کی شروعات ہے، جس طرح پنجاب میں فیض اورسندھ میں ایاز میلو ہوتا ہے۔
غفورکے بقول: ’میں اپنا تجربہ بتا رہا ہوں کہ کسی بھی ادبی فیسٹیول میں لوگ پینل ڈسکشن میں کم دلچسپی رکھتے ہیں، تاہم ہمارے پروگرام میں جب یہ سلسلہ چلا تو 15 سو کے قریب کرسیاں رکھی تھیں، جو تمام بھر گئی تھیں اور یہ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری کامیابی ہے۔‘
اس فیسٹیول میں سیاسی رہنماؤں میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ، ماہرمعیشت قیصربنگالی نے بھی شرکت کی اور شرکا کو معیشت کے حوالے سے آگاہی دی۔
غفورنے بتایا: ’اس فیسٹیول میں ہم نے مقامی کتب فروشوں کے علاوہ کراچی اور لاہور سے بھی پبلشرز کو دعوت دی تھی، جن کی تعداد 30 سے زائد تھی، جنہوں نے کتب کے سٹال لگائے تھے، ہمارے جمع کردہ اعداد وشمار کے مطابق لوگوں نے تقریباً 35 لاکھ کی کتابیں تین روز کے دوران خریدیں جو ایک ریکارڈ ہے۔
بلوچستان کے ضلع کیچ کا شمار شورش سے متاثرہ علاقوں میں ہوتا ہے۔
غفور کہتے ہیں کہ فیسٹیول کے انعقاد کا مقصد یہاں کے لوگوں کو ادب اور کتب سے قریب کرنا اور علم دوستی کا فروغ تھا، جس کا نتیجہ ہر پروگرام میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کی شرکت کے ذریعے سامنے آیا، جب کہ اس میں مردوں اور خواتین کی شرکت کا تناسب آدھا آدھا رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل اس قسم کی تقریبات کا ان کے ہاں رواج نہیں تھا۔
’ہم نے اس کی شروعات کی ہے، آئندہ بھی ہماری کوشش ہوگی کہ اس قسم کی تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔‘
غفورنے بتایا کہ کتب فروشوں نے بتایا اورہم نے خود بھی مشاہدہ کیا کہ لوگوں نے کتب میں بہت زیادہ دلچسپی لی اور مختلف موضوعات کی کتابیں جن میں ثقافت، بلوچی زبان، ادب، تاریخ اور سائنس بھی شامل ہیں۔
اس فیسٹیول میں کتابوں کا سٹال لگانے والے عبدالغفار بھی شامل تھے، جنہوں نے بتایا کہ یہ دوسرے کتب میلوں سے اس وجہ سے مختلف تھا کہ طلبا اور عام لوگوں کی دلچسپی کتب میں زیادہ تھی، کوئی بھی ایسا فرد نہیں تھا جو کتب سٹال سے خالی ہاتھ گیا ہو۔
کتب فروش عبدالغفار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’لوگوں نے نصابی کتب کے علاوہ ناولوں کی زیادہ خریداری کی، جن میں اکثر وہ شامل تھے جو انگریزی زبان میں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا اس کے علاوہ فکشن، سائنس، سیاست، نان فکشن، شاعری، پرانے کلاسیکل ناول خریدے گئے۔
غفارنے بتایا: ’ہمارے سٹالوں پر وہ طلبہ زیادہ تعداد میں آتے رہے، جو لٹریچر پڑھ رہے تھے اوران کے اساتذہ نے انہیں ایسی کتابیں خریدنے کی تلقین کی تھی، اس کے علاوہ خواتین کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مجھے جو تبدیل شدہ ماحول اس وجہ سے بھی لگا کہ جو طلبہ آتے تھے وہ مخصوص کتابوں کے بارے میں پوچھتے تھے، جیسے ان کو ان کے بارے میں پہلے سے آگاہی تھی۔
’میں بلوچستان کے ہر علاقے میں کتب کے سٹال لگاتا رہا ہوں لیکن تربت کا ماحول اس وجہ سے مختلف تھا کہ کتب کے شوقین جنرل کتابوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔‘
غفار نے بتایا کہ اس نے تین دنوں کے دوران اپنے سٹال سے تین لاکھ کی کتابیں فروخت کیں جو اس سے قبل اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہوئی تھیں، اسی طرح اگر ہم مجموعی طور پر دیکھیں تو جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ 35 لاکھ کے قریب کتابیں بکی ہیں تو اتنی ہی قیمت بنتی ہے۔
اس فیسٹیول کا نام بلوچستان کے بلوچی، اردو کے معروف شاعر عطا شاد کے نام پر رکھا گیا ہے۔
اس پر غفور شاد نے بتایا: ’عطا شاد نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کی سطح پر ایک بڑا نام ہیں، دوسرا اگر کیچ میں اہم شخصیات کا ذکر کیا جائے تو عطا شاد سرفہرست نظرآتے ہیں، اس لیے ہم نے ان کے نام پرفیسٹیول رکھا۔‘
عطا شاد کون تھے؟
ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے اردو اور بلوچی زبان کے شاعرمحمد اسحاق جو بعد میں عطا محمد اورپھرعطا شاد سے مشہور ہوئے، وہ یکم نومبر 1939 کو سنگانی سر کیچ مکران میں پیدا ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1962 میں پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ پہلے ریڈیو پاکستان سے اور پھر 1969 میں بلوچستان میں محکمہ تعلقات عامہ سے بطور افسر اطلاعات وابستہ ہوئے۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں اپنے نام کے حوالے سے بتایا تھا: ’جب وہ سکول میں داخلہ لے رہے تھے تو اتفاق سے وہاں سات کے قریب محمد اسحاق نامی تھے، استاد نےکہا کہ اس نام کے پہلے سے بہت ہیں اس کا نام تبدیل کردیں تو اس طرح انہوں نے میرا نام عطا محمد رکھا جو بعد میں عطا شاد ہوگیا۔‘
اپنے جداگانہ اسلوب اور الفاظ کی ادائیگی کے باعث انہیں منفرد لب و لہجے کا شاعر مانا جاتا ہے، ان کے شاعری مجموعوں میں سنگاب، برفاگ بلوچی مجموعے، شپ سہار ندیم، روچ گراور گچین ہیں۔
انہیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اورستارہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔
وہ 13 نومبر 1997 کو کوئٹہ میں وفات پا گئے تھے۔ اکادمی ادبیات کی کتب میں ان کے مشہور اشعار کچھ اس طرح درج ہیں۔
پارساؤں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا
ہم سے پی اور ہمیں رسوا سرے بازار کیا
سیلاب کو نہ روکیے رستہ بنائیے
کس نے کہا تھا، گھر لب دریا بنائیے
نظم وفا میں لکھتے ہیں
میری زمین پر ایک کٹورے پانی کی قیمت
سو سال وفا ہے
آؤ ہم بھی پیاس بجھائیں
زندگیوں کا سواد کرلیں