افغان طالبان نے ضلع خیبر میں پاکستان کے ساتھ سرحدی گزرگاہ طورخم بارڈر کو اتوار کو احتجاجاً ہر قسم کی آمد ورفت کے لیے بند کردیا ہے جبکہ سرحد پر وقفے وقفے سے فائرنگ کی اطلاعات ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار انیلا خالد کے مطابق طورخم بارڈر کے پاس موجود ذرائع کے مطابق پیر کی صبح فائرنگ کا تبادلہ کچھ دیر سے رک گیا ہے۔
افغانستان کے مشرقی صوبے نگر ہار میں طالبان انتظامیہ کی پولیس فورس کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’سرحد بند ہے، ہم اس کی تفصیلات بعد میں بتائیں گے۔‘
پاکستانی فوج، پولیس اور سرکاری ترجمان فوری طور پر تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھے لیکن علاقے میں دو پاکستانی سکیورٹی عہدیداروں نے تصدیق کی ہے کہ سرحد کو بند کر دیا گیا ہے اور کچھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔
پاکستان کی طرف علاقے لنڈی کوتل کے رہائشی محمد علی شنواری نے روئٹرز کو بتایا کہ سرحد اتوار کی رات دیر گئے بند کر دی گئی تھی اور فائرنگ پیر کی علی الصبح شروع ہو ئی تھی۔
انہوں نے کہا، ’ہم نے صبح جب گولیوں کی آواز سنی، تو ہمیں فکر ہوئی اور شک گزرا کہ دونوں ممالک کے فوجیوں نے لڑائی شروع کر دی ہے۔‘
افغان طالبان نے بارڈر کی بندش کا یہ اقدام ایک ایسے وقت میں اٹھایا ہے جب گذشتہ جمعے کو طورخم بارڈر پر تعینات پاکستانی سکیورٹی حکام نے افغانستان سے آنے والے مریضوں کے ساتھ غیر ضروری مددگاروں پر پابندی کا فیصلہ کیا، جس پر افغان حکومت نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پہلے تو وہاں سے مریضوں کی پاکستان آمد پر پابندی لگائی اور بعدازاں رات کو سرحد کو مکمل طور پر بند کردیا گیا۔
پاکستانی حکام نے شیر خوار بچے کے والدین اور سخت بیمار افراد کے ساتھ ایک یا دو مددگار افراد کی اجازت برقرار رکھی تھی۔
اتوار کو دیر گئے افغانستان کے طورخم کمشنر مولوی محمد صدیق نے کہا، ’یہ گیٹ ہر قسم کی ٹریفک، ٹرانزٹ اور کمرشل گاڑیوں کے لیے بند ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
باختر ایجنسی کی خبر کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی جانب سے کیے گئے وعدوں کی عدم تکمیل کے جواب میں انہوں نے طالبان رہنماؤں کی ہدایات پر سرحد کو بند کیا ہے۔
مولوی محمد صدیق نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ کسی صورت میں طورخم کا دورہ نہ کریں۔
طورخم پاکستان اور افغانستان کے درمیان واحد سرحدی گزرگاہ ہے جہاں سے پاکستانی حکام افغان مریضوں کے ایک یا دو رشتہ داروں کو آسان شرائط کے ساتھ علاج کے لیے آنے کی اجازت دیتے ہیں۔
نامہ نگار مہراب آفریدی کے مطابق طورخم ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر سید عبداللہ نے بتایا کہ روزانہ 110 مریض اور ان کے ساتھ 90 کے قریب مددگار افراد پاکستان آتے تھے۔ موجودہ وقت میں سرحد کی دونوں جانب مال بردار گاڑیوں کی لمبی قطاریں کھڑی ہیں تاہم اب تک دونوں ممالک کے درمیان اس حوالے سے کوئی بات چیت شروع نہیں ہوسکی۔