’مجھے یاد ہے وہ دن جب افغانستان میں ہر طرف خوف چھایا ہوا تھا، سب لوگ اسی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے کہ کس طرح اس وطن کو چھوڑ دیں کیوں کہ وہاں اب رہنا مشکل ہوچکا تھا۔ لوگ طالبان کے خوف سے اس قدر شدید اضطراب میں تھے کہ سب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ میں بھی انسان ہوں خوف تو مجھے بھی تھا کہ کیا ہوگا اب میرا۔
یہ الفاظ افغانستان سے تعلق رکھنے والی 65 سالہ گل ورینہ (فرضی نام) کے ہیں۔
گل ورینہ کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے بھائی، بھابھی اور ان کے بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھیں کہ 15 اگست کو طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد ان کے گھر میں موجود افراد نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا لیکن چوں کہ ان کے پاس ویزا نہیں تھا تو ان کو گھر والوں نے کہا کہ فی الحال وہ افغانستان میں ہی رک جائیں بعد میں انہیں پاکستان بلوا لیا جائے گا۔
لیکن ان کا انتظار بس انتظار ہی رہا کیوں کہ کئی مہینے گزرنے کے باوجود بھی جب کسی نے ان کا خیال نہ کیا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ویزہ کے بغیر پاکستان جائیں گی۔
کسی بھی طریقے سے پاکستان
گل ورینہ کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں بالکل اکیلی رہ گئی تھیں اور ایک دن 31 جولائی کو انہوں نے رخت سفر باندھ ہی لیا۔
’صبح نو بجے کابل سے کار میں روانہ ہوئی اور طورخم پہنچتے شام کے پانچ بج چکے تھے اور سرحد پر پاکستان کی جانب انہوں نے کوائف کے اندارج کے ادارے ’نادرا‘ میں نے کئی گھنٹے تک انتظار کیا اور ان کے بقول انہیں مزید سفر کی اجازت نہیں ملی۔‘
گل ورینہ نے دعویٰ کیا کہ ’میری پریشانی کو دیکھتے ہوئے سادہ لباس میں ملبوس شخص نے کہا کہ وہ یہ مسئلہ حل کروا سکتے ہیں اور پھر میں اس شخص سے میں اپنے بھائی کا واٹس اپ پر رابطہ کروایا جس پر اس شخص نے کہا کہ اگر اسے 45 ہزار روپے ادا کر دیے جائیں تو وہ انہیں بھائی کے گھر اسلام آباد تک پہنچا دیں گے۔‘
تاہم 40 ہزار پر بات طے ہو گئی اور گل ورینہ کو اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔
ایف آئی اے کے شفقت جمال کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وہ افراد جن کے پاس پاکستان کا ویزا نہیں ہوتا اور دیگر بنیادی قانونی دستاویزات نہیں رکھتے اور علاج کے لیے پاکستان آنا چاہتے ہیں، ان کو طورخم سرحد پر ایمرجنسی ڈکلیئر کرنے کے بعد پاکستان آنے کی اجازت مل جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب تک 400 سے زائد افراد کو اجازت دے دی گئی ہے جب کا پاکستان میں علاج معالجہ بھی ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
افغانستان پر طالبان حکومت کے قیام کے بعد حکومت پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اب تک 403 ایسے افغانوں کو ملک میں آنے کی اجازت دی جو علاج کے لیے آنا چاہتے تھے۔
طورخم سرحد پر پاکستانی سرحد کی جانب قائم پاک افغان دوستی ہسپتال میں محکمہ صحت کے اہلکاروں کی تجویز پر ایمرجنسی پاسپورٹ پر افغان باشندوں کو پاکستان آنے کی اجازت ہوتی ہے۔
اسی طرح 19803 ایسے افراد کو بھی طورخم سرحد پر افغانستان سے پاکستان آنے کی اجازت دے دی گئی جو طالبان حکومت کے بعد پاکستان کے راستے دیگر ممالک کی طرف گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یاد رہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک طورخم سرحد پر ایسے لوگوں کا بہت ہجوم رہتا تھا کیونکہ بڑے پیمانے پر لوگ ملک چھوڑنے کے لیے پاکستان کا رخ کرنے لگے تھے۔
طورخم میں تعینات ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر شفقت جمال کے مطابق 15 اگست 2021 سے لے کر اکتوبر 2022 تک طورخم سرحد کے ذریعے افغانستان سے آنے والے افراد کی تعداد 11 لاکھ 11 ہزار ہے جن میں 15 سے 20 فیصد پاکستانی ہیں جبکہ دیگر کا تعلق افغانستان سے تھا۔
اسی طرح ساڑھے 22 سو کے قریب وہ افراد بھی ہیں جن کے ویزہ اور دیگر دستاویزات میں کمی یا غلطی تھی اور قانون کے مطابق ان کے بارے میں فیصلہ کیا گیا۔ طورخم پر بارڈر مینیجمنٹ سسٹم کے قیام کے بعد افغانستان ڈی پورٹ ہونے والوں کی تعداد 455 بتائی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایف آئی اے خلاف مہم
انسانی حقوق اور طورخم سرحد پر انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے سرگرم ایک کارکن سمیع اللہ کا الزام ہے کہ طورخم بارڈر پر روزانہ کی بنیاد پر انسانی سمگلنگ کے واقعات ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں وہ دستاویزات پریس کانفرنس میں دکھانے کے علاوہ ڈی جی ایف آئی اے کو بھی بھیج چکے ہیں۔
سمیع اللہ کا کہنا تھا کہ وہ اس ضمن میں ایک خط کے ذریعے انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو بھی مطلع کریں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہر مہنیے لگ بھگ 45 ہزار تک افغان باشندے انسانی سمگلنگ کے ذریعے پاکستان پہنچتے ہیں اور ان میں زیادہ تر بیماری کا بہانہ بنا کر غیرقانونی طریقے سے داخل ہوتے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ اس سمگلنگ میں ایف آئی اے کے اہلکار اور محکمہ صحت کا عملہ بھی ملوث ہے۔
تاہم ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے شفقت ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسانی سمگلنگ پر آئی اے کے اہلکار بڑے چوکس رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ مقامی لوگ افغان شہریوں سے رقم لے کر ان کو بغیر دستاویزات کے پاکستان لانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اکثر اوقات پکڑے جاتے ہیں۔
واجد (فرضی نام) لنڈی کوتل کے رہائشی ہیں، کئی سال پہلے تک وہ طورخم کے راستے تجارتی سامان ہاتھ گاڑی میں پاکستان لاتے تھے لیکن دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد سرحد پر ویزے شرائط سخت ہونے کے بعد انہوں نے مجبوراً کام چھوڑ دیا۔
لیکن جب انہیں کوئی اور روزگار نہ ملا تو انہوں نے پیسوں کے عوض طورخم سرحد پر بغیر سفری دستاویزات کے لوگوں کو سرحد پار لینے جا نے کا کام شروع کیا۔
واجد کا کہنا تھا کہ دس سے 70 ہزار روپے ایک آدمی سے لیا جاتا ہے تاہم ان کے بقول یہ انتہائی مشکل کام ہے۔
امجد کا تعلق افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار کے مرکزی شہر جلال آباد سے ہے اور کچھ عرصہ قبل وہ بغیر سفری دستاویزات کے پشاور میں کام کے سلسلے میں طورخم کے راستے آئے تھے۔
امجد کا کہنا ہے کہ وہ بھی ایک ایجنٹ کو 10 ہزار روپے کر پاکستان میں داخلہ ہوئے تھے اور ان کے بقول سارا عمل بہت مشکل تھا۔
ان الزامات کے بارے میں خیبر ضلعی پولیس آفسر عمران نے رابطے پر بتایا کہ ’پولیس قوانین واضح ہیں اور جو افسران یا جوان ایسے کاموں میں ملوث پائے گئے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘
2022 سزا جزا کےعمل کے دوران بعد از تفتیش 156 افسران و جوانوں کو بڑی سزائیں دی گئی ہیں جو مختلف کوتاہیوں کے مرتکب ہوئے تھے۔
طورخم زیرو پوائنٹ پر واقع ہسپتال جو افغان مریضوں کو پشاور اور دیگر ہسپتالوں کو ریفر کرتے ہیں۔ اس ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر سید عبداللہ نے کہا کہ محکمہ صحت عملے پر انسانی سمگلنگ میں مدد کا الزام سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی کے پاس اس بارے میں ثبوت ہیں تو وہ پیش کرے، ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔