امریکہ نے چینی غبارے کی نئی تصویر جاری کر دی

امریکہ نے یو ٹو طیارے کے پائلٹ کی لی گئی چینی غبارے کی ایک نئی تصویر جاری کی ہے جس میں اسے چند روز قبل امریکہ کے اوپر اڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

امریکی محکمہ دفع کی جاری کردی اس سیلفی میں جاسوس طیارے کے ہواباز نے غبارے کے اوپر سے اڑتے ہوئے بنائی، جس میں یو ٹو کا سایہ غبارے پر پڑ رہا ہے جو آلات کے ساتھ پورے امریکہ پر سے گزر رہا ہے (امریکی محکمہ دفاع)

امریکی محکمہ دفاع نے یو ٹو طیارے کے پائلٹ کی طرف سے لی گئی ایک نئی تصویر جاری کی ہے جس میں چینی جاسوس غبارے کو چند روز قبل امریکہ کے اوپر اڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

یہ سیلفی جاسوس طیارے کے ہواباز نے غبارے کے اوپر سے اڑتے ہوئے بنائی تھی، جس میں دکھایا گیا کہ غبارے پر طیارے کا سایہ پڑ رہا ہے اور غبارہ اپنے اوپر رکھے آلات کے ساتھ پورے امریکہ پر سے گزر رہا ہے۔

اس تصویر کی موجودگی کی اطلاع ابتدائی طور پر امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے دی تھی۔

غبارے کو ابتدائی طور پر 28 جنوری کو دیکھا گیا تھا اور امریکی فوج نے اسے چار فروری کو جنوبی کیرولائنا کے ساحل کے قریب مار گرایا۔

اس سے پہلے رواں ماہ امریکی محکمہ دفاع کے عہدے دار نے کہا تھا کہ قریب سے گزرنے والے طیاروں نے ’انکشاف کیا کہ انتہائی بلندی پر پرواز کرنے والے غبارے لوگوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سننے اور خفیہ معلومات اکٹھی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

غبارے کو اس کے حجم اور زمین پر ہونے والے ممکنہ نقصان کی وجہ سے زمین پر نہیں گرایا گیا۔

امریکی نشریات ادارے سی این این نے رپورٹ کیا کہ امریکی شمالی کمان اور شمالی امریکی ایرو سپیس ڈیفنس کمانڈ کے کمانڈر جنرل گلین وان ہرک نے کہا کہ یہ غبارہ 200 فٹ (61 میٹر) طویل تھا اور اس پر موجود آلات کا وزن ہزاروں پاؤنڈ تھا۔

حکام نے مزید کہا کہ غبارے میں اہم خفیہ معلومات جمع نہیں کر سکا جس کی ایک وجہ امریکی اقدامات تھے۔

امریکی فضائیہ کا کہنا ہے کہ یو ٹو طیارے میں ایک نشست ہوتی ہے اور وہ ’گلائیڈر جیسی خصوصیات‘ کے ساتھ جاسوسی اور نگرانی کے مشن کے دوران اونچائی پر پرواز کرتا ہے۔

پائلٹوں کے لیے ’خلا نوردوں جیسا مکمل پریشر سوٹ پہننا لازمی ہوتا ہے کیوں کہ یہ طیارے اکثر ’ستّر ہزار میٹر سے زیادہ بلندی پر پرواز کرتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ غبارہ مونٹانا کے اوپر ساٹھ ہزار فٹ سے زیادہ کی بلندی پر دیکھا گیا تھا اور چار فروری کو گرایا گیا، جس کے بعد اس کے تمام ٹکڑے اکٹھے کرنے کا کام 17 فروری کو مکمل ہوا۔

اس کا ملبہ تجزیے کے لیے ورجینیا میں واقع فیڈرل بیور آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی لیبارٹری میں لے جایا گیا۔

سی این این کے مطابق بدھ کو پینٹاگون کی ڈپٹی پریس سیکریٹری سبرینا سنگھ نے کہا کہ غبارے میں موجود آلات اکٹھے کر لیے گئے ہیں۔

قبل ازیں اس ماہ ایک سینئر دفاعی اہلکار نے کہا تھا کہ چینی جاسوس غبارے اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں تین بار امریکی فضائی حدود میں داخل ہوئے تھے۔

ٹرمپ اور دیگر رپبلکن رہنما اس سے قبل اس طرح کے دعووں کو مسترد کر چکے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ غبارے جوبائیڈن اور براک اوباما کے ادوار میں امریکی فضائی حدود میں داخل ہوئے۔

محکمہ دفاع نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ’چینی غباروں نے سابقہ انتظامیہ کے دوران کم از کم تین بار براعظمی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا مختصر سفر کیا۔‘

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بائیڈن کے دور صدارت میں اس سے قبل ایک اور غبارہ امریکی فضائی حدود میں داخل ہوا تھا۔

ان تبصروں کی وضاحت کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ ماضی میں ٹرمپ کی مدت صدارت کے دوران امریکی فضائی حدود میں چینی غباروں کی موجودگی کی نشاندہی کرنے میں کامیاب رہی۔ ’اپنی علاقائی فضائی حدود کی نگرانی (بہتر بنائی)۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا