پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے آج سے ملک میں ’جیل بھرو‘ کے نام سے تحریک کے آغاز کا اعلان کر رکھا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر پولیس لوگوں کو گرفتار کیوں کرے گی اور اگر کرے گی بھی تو انہیں رکھا کہاں جائے گا کیوں کہ ملک کی تمام ہی جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ ملزمان قید ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تو کوئی جیل ہے نہیں البتہ ملک کے دیگر چار صوبوں کی جیلوں میں قیدیوں کے لیے گنجائش لگ بھگ 57 ہزار ہے جب کہ وہاں قید افراد کی تعداد 85 ہزار سے زائد ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قید خانوں میں گنجائش نہیں ہے۔
لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ قانون کے مطابق بغیر مقدمات کے اندراج کے پولیس کسی شہری کو گرفتار نہیں کر سکتی یا دوسری صورت میں اگر کوئی امن عامہ میں خلل ڈالے، کار سرکار میں مداخلت پیدا کرے یا نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے تو گرفتاری عمل میں لائے جا سکتی ہے۔
تحریک انصاف کی طرف سے اب تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق پہلے مرحلے میں بدھ کو لاہور میں چیئرنگ کراس پر دھرنا دیا جائے گا اور 200 کارکن خود کو گرفتاری کے لیے پیش کریں گے۔
پی ٹی آئی کے رہنما اعظم سواتی نے گذشتہ روز انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا تھا: ’ہم بدھ کو دن دو بجے چیئرنگ کراس مال روڈ پر جمع ہوں گے اور وہاں دھرنا دیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مال روڈ پر احتجاج کرنے پر دفعہ 144 کی کارروائی ہوتی ہے، لہذا ہمیں اسی دفعہ کے تحت گرفتار کرنے کا جواز پولیس کے پاس موجود ہوگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسی صورت میں ملک میں امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے منگل کی شام اسلام آباد میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر، پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد کے پولیس سربراہان، ہوم سیکرٹریز اور کمشنر اسلام آباد سمیت دیگر اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ ملک میں امن و امان کی صورت حال کو یقینی بنایا جائے گا اور قانون توڑنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا۔
وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا کہ ’امن دشمنوں کا ریکارڈ رکھا جائے اور اسے ان کے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ میں واضح کیا جائے گا۔‘
وزیر داخلہ نے بیان میں کہا کہ ’جیل بھرو تحریک کے اصل مقاصد ڈرامہ رچانا، میڈیا کی توجہ حاصل کرنا، امن و امان کی صورت حال کو متاثر کرنا اور سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’قانون توڑنے والوں کے خلاف شواہد اکٹھے کر کے عوام کے سامنے لائے جائیں تاکہ قانون شکنوں کا اصل چہرہ بے نقاب ہو۔‘
اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ’خواتین اور غریب کارکنوں کی گرفتاری سے گریز کیا جائے۔‘
نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگاروں کراچی سے صالح فیروز خان، لاہور سے فاطمہ علی، پشاور سے اظہار خان اور کوئٹہ سے ہزار خان بلوچ نے جیلوں میں قیدیوں کی تعداد سے متعلق اعداد و شمار فراہم کیے۔