چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ صوبائی انتخابات کے حوالے سے ازخود نوٹس کے معاملے پر سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے شروع کریں گے اور کوشش کریں گے کہ سماعت کل ختم کر سکیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے از خود نوٹس سماعت کے دوران سپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے عدالت میں کہا کہ ’آئین میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ترکی میں زلزلے کے باوجود انتخابات بروقت ہو رہے ہیں۔ پولنگ کے دن کیا ہوجائے وہ اُس وقت ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلے ہی خدشات کی بنیاد پر پولنگ ملتوی نہیں ہوسکتی۔‘
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالت آرٹیکل 254 کو بھی مدنظر رکھے۔‘
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 254 کا اطلاق تب ہوگا جب کوئی کام تاخیر سےکیا گیا ہو۔ پہلے کام کرنے کی نیت تو کریں۔ 2005 میں زلزلہ آیا تو بھی سپریم کورٹ بار کے انتخابات بروقت ہوئے تھے۔‘
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ’صدر کی جانب سے دی گئی تاریخ پر الیکشن ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق 52 دن درکار ہوتے ہیں۔ کسی صورت بھی 25 اپریل سے پہلے انتخابات ممکن نہیں۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’جہاں آئین خاموش ہو تو قانون کے مطابق چلا جاتا ہے۔‘ سپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے پیر کی سہ پہر ہونے والی سماعت میں اپنے دلائل مکمل کر لیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’منگل کو سپریم کورٹ بار اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدور کو بھی سنیں گے۔‘
عدالت نے دلائل کے لیے پنجاب اور کے پی انتخابات ازخود نوٹس کیس کی سماعت منگل کی صبح 9:30 بجے تک ملتوی کر دی۔
قبل ازیں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر ازخود نوٹس سننے والا سپریم کورٹ کا نو رکنی بینچ پیر کو تحلیل ہو گیا، جس کے بعد نئے بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو بھجوا دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے 22 فروری کو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق صورت حال پر ازخود نوٹس لیا تھا اور سماعت کے لیے نو رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
لارجر بینچ میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے جبکہ سینیئر ترین ججز یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق بینچ کا حصہ نہیں تھے۔
23 فروری کو ہونے والی پہلی سماعت کے دوران بینچ میں شامل دو ججوں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ نے ازخود نوٹس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
جبکہ 24 فروری کو ہونے والی سماعت میں مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام نے کیس سننے والے دو ججز پر اعتراضات اٹھائے تھے جبکہ پی پی پی نے عدالت سے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی بھی استدعا کی تھی۔
صوبائی الیکشن کا معاملہ سپریم کورٹ میں کب آیا؟
رواں ماہ دس فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ 90 روز کے اندر الیکشن کا انعقاد ایک آئینی تقاضہ ہے، جس پر عمل درآمد نہایت ضروری ہے۔
بعدازاں 16 فروری کو سی سی پی او لاہور تبادلہ کیس کے دوران سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے تحریری فیصلے میں 90 دن میں انتخابات میں تاخیر پر چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا کہہ دیا۔
فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ ’90 دنوں میں پنجاب میں انتخابات میں تاخیر کا معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوا رہے ہیں۔ اگر چیف جسٹس پاکستان چاہیں تو انتخاب میں تاخیر پر ازخود نوٹس لے سکتے ہیں۔‘
پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کب تحلیل ہوئی؟
پنجاب اسمبلی 14 جنوری جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی تھی۔
آئین کے آرٹیکل 224 کی شق دو کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر انتخابات کا انعقاد کرانا ہوتا ہے۔
ازخود نوٹس کے اعلامیے میں کہا گیا: ’اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر ہوئی جس میں سنگل بینچ نے کہا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ گورنر اور الیکشن کمیشن نے عدالت کو کوئی جواب جمع نہیں کرایا، جس کے بعد 20 فروری کو صدر پاکستان نے نوٹس لیتے ہوئے صوبائی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا۔ لیکن یہ معاملہ تاحال حل نہیں ہوا۔‘