مستقبل قریب میں ملک خداداد میں نہ تو پتلی تماشے ختم ہونے والے ہیں اور نہ ہی ان سطور سے نجات ملنے کی امید ہے کہ پاکستان اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے۔
دنیا بھر میں جس خوشحال ملک پر نظر ڈالیں ایک بات طے ہے کہ وہاں نظام اور ادارے آپ کو اتنے مضبوط دکھائی دیں گے، اتنے مضبوط کہ آپ یہ تاثر قائم کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کریں گے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم پاکستان میں اپنے نظام اور اداروں کو کیوں نہ مضبوط بنا سکے؟
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ چاہے وہ سیاست دان ہوں یا فوجی آمر جو بھی اقتدار میں آیا، ان کے لیے اقتدار کو دوام دینا مقدم رہا نہ کہ اداروں اور نظام میں موجودہ خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر کسی سیاست دان نے ملکی معاملات کو بہتر بنانے میں سنجیدگی دکھائی بھی تو اسے چلتا کرنے میں دیر نہیں لگائی گئی۔ جمہوری حکومتوں کی بساط لپیٹنے میں بندوق اور بوٹ استعمال ہوئے تو کندھا سیاست دانوں نے ہی فراہم کیا۔
بہرحال اب یہ وقت ماضی کریدنے کا نہیں بلکہ ایک ’بدحال‘ حال سے نکلنے اور مستقبل میں ملک کو صحیح سمت دینے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنے کا ہے، لیکن ایسا کرنا تو درکنار اس وقت یہ سوچنا بھی محال ہو چکا ہے۔
عمران خان اور پی ڈی ایم کی لڑائی میں الیکشن کمیشن کے بعد اب عدلیہ کو فٹ بال بنایا جا چکا ہے۔ مضبوط اداروں کی بات کالم کے آغاز میں اسی لیے کی کہ یہاں اداروں کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو درست کرنے کی بجائے پارٹی بنایا جا چکا ہے۔
اس بات میں بھی کوئی دو آرا نہیں کہ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ان اداروں میں بیٹھی چند شخصیات نے بھی خود کو متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
مثال کے طور پر سپریم کورٹ نے دو صوبوں میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ازخود نوٹس تو لے لیا لیکن جس طریقے سے ایک بیوروکریٹ کے مقدمے میں چیف الیکشن کمشنر کو بلا کر ازخود نوٹس کی راہ ہموار کی گئی اور پھر جس طریقے سے بیچ کی تشکیل میں سینیئر ججز کو نظرانداز کیا گیا اس سے پی ڈی ایم حکومت کو فیصلے سے پہلے ہی فیصلے کو متنازع بنانے کا موقع میسر آ گیا۔
اب صبح شام ہم میڈیا والے بھی بریکنگ نیوز کی ڈگڈگی بجا کر معاملات کو مزید گرما رہے ہیں۔
اس وقت عدالت میں جاری کارروائی میں یہ معاملہ مکمل دب چکا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاملات اب تک کیوں نہ طے ہو پائے۔
دائیں بائیں کبھی کوئی وزیر تو کبھی کوئی انٹرنیشنل ریٹنگ ایجنسی پاکستانی معیشت کے بارے میں بری خبر سنا دیتی ہے لیکن ہماری ترجیحات اس وقت سپریم کورٹ سے شروع ہو کر اڈیالہ جیل اور پولیس وین پر ختم ہو جاتی ہیں۔
اس وقت بین الاقوامی دنیا میں ہم تماشہ بن چکے ہیں، جن دوست ممالک کو اپنے مخدوش معاشی حالات کا واسطہ دے کر پیسوں کے لیے منتیں ترلے کر رہے ہیں وہ بھی ہمارے اندرونی حالات اور ترجیحات دیکھ کر اس بات پر حیران ہیں کہ ہمیں خود تو احساس ہی نہیں کہ اس وقت ملک کہاں کھڑا ہے لیکن ہم دنیا سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے مسائل کو سمجھے بھی اور حل بھی کرے۔
خدانخواستہ اگر ہم واقعی ڈیفالٹ کر گئے تو کیا پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی ویسٹ انڈیز میں جا کر سیاست کریں گی؟ اور ہم صحافی کیا دبئی جا کر ہر شام اپنی دکان چمکائیں گے؟
میں میڈیا کا تذکرہ اس لیے کر رہا ہوں کہ ’تو تو میں میں‘ کے اس شوروغل میں اصل مسائل سے توجہ ہٹ چکی ہے اور بطور ریاست کے ایک ستون کے اس بات کا نہ صرف ہمیں خود احساس ہونا چاہیے بلکہ اپنے سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس بھی دلانا چاہیے۔
سیاست دانوں سے بات کریں تو مسلم لیگ ن کے سینیئر لوگ گورننس اور پارٹی کی گرتی ہوئی مقبولیت سے پریشان دکھائی دے رہے ہیں اور تحریک انصاف کے رہنما اس بات پر سر پیٹ رہے ہیں کہ خان صاحب کی جیل بھرو تحریک نے پارٹی کا ردھم توڑ دیا ہے اور ان دونوں خدشات میں اچھا خاصا وزن بھی موجود ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پیپلز پارٹی اور جے یو آئی اقتدار میں تو شامل ہیں لیکن عوام کا غیظ و غضب اور غصہ مسلم لیگ ن پر اتر رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح پی ٹی آئی کی ’جیل بھرو‘ تحریک میں قائدین کا پولیس وین پر چڑھ کر سیلفیاں بنا کر پتلی گلی سے نکل جانے کی ویڈیوز اور پھر پولیس کا سینئیر رہنماؤں کے گھر جا کر لاؤڈ سپیکر سے اعلانات کے باوجود گرفتاریاں نہ دینے سے تحریک انصاف کو اچھی خاصی ہزیمت اٹھانا پڑی۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حکومتی جماعتیں ہوں یا پھر پی ٹی آئی اس وقت ان کی ترجیحات اور سوچ کا مرکز ’اِن ورڈز‘ یعنی اپنے بحرانوں کی طرف ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک کو درپیش سنگین نوعیت کے مسائل اور معاملات پر بات تک نہیں ہو رہی۔
حکومت اس انتظار میں ہے عمران خان کسی طرح نا اہل ہوں پھر گرفتار ہوں تو ان کے مسئلے تقریباً ختم ہو جائیں گے لیکن ایسا سوچنا محض خام خیالی ہے کیونکہ عمران خان کے نااہل ہونے سے نہ تو پاکستان کی بیمار معیشت بہتر ہو گی اور نہ ہی مہنگائی 40 فیصد سے کم ہو گی۔
اسی طرح عمران خان اس انتظار میں ہیں سپریم کورٹ انتخابات کے لیے راہ ہموار کرے گی اور پھر ان کی پارٹی پنجاب اور پختونخوا میں دو تہائی اکثریت حاصل کر کے نہ صرف دوبارہ غلبہ حاصل کر لے گی بلکہ قومی اسمبلی کے انتخابات بھی سویپ کر لے گی۔
اگر وہ ایسا سوچ رہے ہیں اور بظاہر لگ رہا ہے کہ وہ ایسا ہی سوچ رہے ہیں تو یہ فی الحال زمینی حقائق اور دستیاب معلومات کی بنا پر اسے عمران خان کی خام خیالی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان اپنے طرز سیاست اور یو ٹرنز سے خود کو اقتدار کے ایوانوں سے جتنا دور لے جا چکے ہیں، اگر واپس وزیراعظم ہاؤس کا سفر شروع کریں بھی تو انہیں پانچ سال لگ ہی جائیں گے۔
اس وقت تو انہیں اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ ان کے ’جیل بھرو‘ تحریک نامی بلنڈر کی وجہ سے ان کے دو سینیئر ساتھی اسد عمر اور شاہ محمود قریشی 30، 30 دن کے لیے نظر بند ہو چکے ہیں اور پرویز الٰہی ان کی پارٹی کے صدر بن چکے ہیں۔
ایسے میں اگر عمران خان گرفتار اور نااہل ہو جاتے ہیں تو ان کی پارٹی کی باگ ڈور کیا پرویز الٰہی سنبھالیں گے؟ اگر ہاں تو عمران خان کی سیاسی بصیرت کو داد دینی چاہیے۔
بات اگر مسلم لیگ ن کی ہو تو ان کے مسائل حکومت میں آنے کے بعد سے بے تحاشہ بڑھے ہیں اور جب تک نواز شریف کی واپسی نہیں ہو گی، ن لیگ بیانیے کی دوڑ میں پی ٹی آئی سے پیچھے ہی رہے گی۔
فی الحال مسلم لیگ ن کے لیے ایک اچھی خبر مریم نواز کی بطور چیف آرگنائزر واپسی اور تند و تیز تقاریر کا آغاز ہے، جس سے ان کے کارکنان کو یہ تاثر ضرور ملا ہے کہ اس پارٹی میں جان باقی ہے اور نئی/ نوجوان قیادت پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
لیکن مریم نواز کے لیے بڑے چیلنجز اگر اس وقت اس تاثر کا خاتمہ ہے کہ ان کی پارٹی پرفارم کرنا تو دور کی بات، الٹا عوام کی مشکلات میں اضافہ کر گئی تو ساتھ میں انہیں اپنے والد کے ساتھیوں کے ذہنوں میں یہ بات بھی ڈلوانی اور منوانے ہے کہ مستقبل کی قیادت اب مریم نواز کے ہاتھوں میں ہی ہو گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔