پاکستان میں 2023 انتخابات کا سال ہے اور اس کی تیاری کے چرچے ہیں لیکن انتخابات کا انعقاد کروانے والا ادارہ الیکشن کمیشن کتنا تیار ہے اور اس سارے عمل کے لیے اسے کتنے مالی وسائل درکار ہیں، بالآخر اس یہ تو پتہ چل گیا۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں جنرل الیکشن کے انعقاد کے لیے 65 ارب کے فنڈز درکار ہوں گے، جن میں سے دونوں صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کے لیے 20 ارب کے فنڈز فوری طور ضرورت ہیں۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے وزارت خزانہ کو بتایا کہ 20 ارب میں سے ابھی تک کمیشن کو صرف پانچ ارب دیے گئے ہیں جب کہ اس مالی سال میں مزید 15 ارب کے فنڈز درکار ہیں۔
لیکن ایک سرکاری بیان کے مطابق سیکریٹری خزانہ حمید یعقوب شیخ نے الیکشن کمیشن کو ملک کی مجموعی معاشی صورت حال پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ مالی مشکلات کے پیش نظر مطلوبہ فنڈز مہیا کرنا وزرات خزانہ کے لیے مشکل ہے۔ لیکن وہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے مشاورت کرنے کے بعد ہی حتمی جواب دیں گے۔
پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے جب کہ خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے تاریخ کے تعین پر مشاورت جاری ہے، لیکن اگر درکار مالی وسائل دستیاب نہ ہوئے تو انتخابات کا کیا بنے گا، یہ اپنی جگہ ایک بڑا سوال ہے۔
پاکستان کو بدترین معاشی مشکلات کا سامنا ہے، مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بتدریج کم ہوتے جا رہے ہیں عالمی مالیاتی ادارے ’آئی ایم ایف‘ سے لگ بھگ ایک ارب ڈالر قرض کی قسط کب ملے گی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان حالات میں انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو بروقت مالی وسائل کی فراہمی حکومت کو درپیش چیلنجوں میں سے ایک بڑا چیلنج ہے۔ لیکن محض مالی وسائل کی عدم دستیابی ہی بڑا سوال نہیں بلکہ پرامن انتخابات کے لیے سکیورٹی کی فراہمی بھی بہت ضروری ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے دوران سکیورٹی کے لیے پولیس کے علاوہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے دو لاکھ 97 ہزار اہلکار درکار ہوں گے جب کہ خیبر پختونخوا 56 ہزار مزید نفری کی ضرورت ہو گی۔
کمیشن نے وزارت داخلہ کے حکام کو ہدایت کی کہ وہ سکیورٹی کے لیے درکار نفری کے بندوبست کے لیے فوج، رینجرز اور دیگر متعلقہ اداروں کے اہلکاروں سے رابطہ کر کے اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو آگاہ کریں۔
اس ساری صورت حال میں بظاہر لگتا ہے کہ اب بھی سوال بہت ہیں جن کے جوابات کا انتظار ہے، ایسے میں ووٹرز بھی بظاہر تذبذب کا شکار ہیں کیوں کہ تاحال انھیں بھی یقین ہی نہیں ہو رہا ہے کہ انتخابات آخر ہوں گے کب؟
انتخابات کی مکمل تیاری سے متعلق جب تک تمام جوابات سامنے نہیں آ جاتے، سوالات جنم لیتے رہیں گے۔