قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام نے پارلیمان کو تجویز دی ہے کہ کوئی بھی امیدوار دو سے زیادہ حلقوں سے الیکشن نہ لڑ پائے۔
محمد ابو بکر کی زیر صدارت ہونے والے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میں الیکشن کمیشن کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’امیدوار 15 حلقوں سے الیکشن لڑتے ہیں۔ پھر ایک نشست رکھنے کے بعد دوبارہ باقی حلقوں پر الیکشن ہوتا ہے۔
’ہم نے پارلیمنٹ کو تجویز دی ہے کہ ایک سے دو نشستوں پر ایک امیدوار الیکشن لڑے۔ زیادہ سے زیادہ ایک سے تین حلقوں تک الیکشن لڑنے کی اجازت ہو، ہم نے وزارت پارلیمانی امور کو بھی یہ تجویز بھیج دی ہے۔‘
اجلاس میں کمیٹی رکن نور الحسن تنویر نے کہا کہ کم سے کم چار حلقوں تک الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے جبکہ نزہت پٹھان نے کہا کہ چار حلقوں پر الیکشن لڑنے والے سے تین حلقوں پر دوبارہ الیکشن کے اخراجات لیے جائیں۔
’جو شخص 35 حلقوں سے الیکشن لڑ رہا ہے وہ 34 حلقے چھوڑے گا، 34 حلقے چھوڑنے والے سے ان تمام حلقوں پر انتخابات کے اخراجات لیے جائیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اجلاس میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر بریفنگ میں حکام کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن آئین اور قانون میں 60 ترامیم تجویز کر چکا ہے، یہ عجیب بات ہے کہ 15-15 نشستوں پر قوم کے ٹیکس سے الیکشن لڑا جائے۔‘
کمیٹی رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ دوسرے حلقے سے الیکشن لڑنے پر سرکاری خرچ لیا جانا چاہیے۔
دوسری جانب نورالحسن تنویر نے کہا کہ چار نشستوں پر سے الیکشن لڑنے پر بھی سرکاری خرچ امیدوار سے نہیں لیا جانا چاہئے۔
’یہ کتنے پیسے ہوتے ہیں جو آپ امیدوار سے لینا چاہتے ہیں؟ اگر پارٹی قائد زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنا چاہتا ہے تو کیا ہرج ہے؟‘
کمیٹی کے رکن رانا مبشر اقبال نے کہا کہ الیکشن خرچ کی حد بڑھائی جانی چاہیے جس پر نزہت پٹھان نے کہا ایک نشست سے زیادہ جتنی بھی نشستوں پر کوئی الیکشن لڑے اور جن نشستوں کا انتخاب نہ کرے تو اس فرد کو ماندہ نشستوں پر الیکشن کے اخراجات اٹھانے چاہیے۔‘
گذشتہ برس پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پی ٹی آئی کی نو خالی نشستوں پر خود ضمنی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ کل آٹھ نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں سابق وزیر اعظم چھ نشستوں پر جیتے تھے۔