افغانستان میں انسانی حقوق کی بات کی جائے تو خواتین اپنے بنیادی حق جیسے کہ تعلیم سے محروم رکھی جا رہی ہیں۔
افغان خواتین کو بیشتر اوقات اپنے علاج کی غرض سے پاکستان کا رخ کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کی کسی خاتون ڈاکٹر تک پہنچ نہیں ہو پاتی۔
افغانستان میں لڑکیوں کے میڈیکل امتحان کی تاخیر میں بات صرف ثقافتی مسائل کی نہیں بلکہ ان میڈیکل کی طالبات کی اٹھارہ سال محنت کی ہے جس سے چند حکمران انکھیں چھپا نہیں سکتے ورنہ جنگی حالات سے دوچار رہنے والے ملک کے زخمیوں کو ڈاکٹرز تو کیا مرہم لگانے کے لیے نرسز بھی مشکل سے میسر ہوسکیں گی۔
میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی آریا کہتی ہیں: ’لڑکیوں سے میڈیکل اگزٹ امتحان نہ لینے کے خاصے برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں کیونکہ ہم نے اسی مقصد کے لیے محنت کی کہ ہم امتحان دیں اور سرٹیفیکیٹ حاصل کریں اور پھر نوکری کریں لیکن ہمیں امتحان دینے کی اجازت نہیں دی گئی تاکہ سرٹیفیکیٹ حاصل نہ کرسکیں۔‘
انہوں نے کہا: ’افغان کلچر میں یہ رواج نہیں کہ بیمارعورتوں کو علاج کی غرض سے مرد ڈاکٹر کو دکھائیں تو ہمیں چاہیے کہ لڑکیوں کو میڈیکل کی تعلیم کی اجازت دے دیں تاکہ بیمار عورتوں کو علاج کے لیے عورت ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میڈیکل اگزٹ امتحان کا انتظار کرنے والی طالبہ کرشمہ کہتی ہیں کہ لڑکیوں سے یہ امتحان نہ لینا اور اس میں تاخیر کرنا لڑکیوں کی نفسیات پر بہت برا اثر ڈال رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’موجودہ حکومت سے ہماری خواہش اور ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ لڑکیوں کے لیے سکول اور کالجوں کے دروازے کھول دیےجائیں لیکن کچھ حکام میڈیا کے سامنے اکثر اس مسئلے کے بارے میں تبصرہ کرنے سےگریز کرتے ہیں اور یا پھر بہانوں سے کام لیتے ہیں اور صرف اتنا بتاتے ہیں کہ لڑکیوں کے ہر قسم کی تعلیم کے لیے ایک جامع پلان پر کام جاری ہے اور لڑکیوں کے میڈیکل اگزٹ امتحان کے بارے میں میڈیکل کونسل کی جانب سے سفارشات افغان حکومت کے اعلیٰ حکام کو ارسال کیے گئے ہیں اور عوام کے ساتھ میڈیکل کونسل والے بھی جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
گذشتہ سال میں طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی، جس کے بعد سے خواتین نے اس پابندی کے خلاف مظاہرے جاری رکھے۔ طالبان کے مطابق یہ پابندی ڈریس کوڈ کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے لگائی گئی، جبکہ اس فیصلے کو اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔