مسئلہ کشمیر کو بظاہر حل کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے ملکی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت 1947 میں الحاق کے بعد سے ریاست کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ آئینی شق ختم کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے حالیہ انتخابات میں اپنی مہم کے دوران کیا گیا وعدہ پورا کیا۔ اس وعدے کی بدولت بی جے پی کو اکثریت سے دوبارہ کامیابی ملی۔
حامیوں کا دعویٰ ہے کہ آئین کے آرٹیکل کے خاتمے سے کشمیر کی شورش زدہ ریاست بھارت کا باضابطہ حصہ بن جائے گی اور وہاں علیحدگی کے رجحانات کا خاتمہ ہو گا جنھوں نے علاقے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ آئینی شق ختم ہونے سے آئین کی بنیاد کے لیے ہی خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ بی جے پی کی بھارت کے وفاقی ڈھانچے سے دشمنی بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ ناقدین کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل تو دور کی بات آئینی شق کے خاتمے سے کشمیر، بھارت کے دوسرے حصوں سے مزید کٹ کر رہ جائے گا۔
حقیقت میں، جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے بی جے پی حکومت نے بھڑوں کے چھتے کو بلاوجہ چھیڑ دیا ہے۔ بھارتی حکومت کے اقدام سے بھارت کا کشمیر پر دعویٰ کمزور ہوگا، کشمیریوں میں اشتعال پھیلے گا اور پہلے سے شورش کے شکار علاقے میں مزید کشیدگی پھیلے گی۔
انقلابی سیاسی اقدام سے کہیں دور آرٹیکل 370 کا خاتمہ ایک کھلے دروازے سے زور لگا کر گزرنے کے مترادف ہے۔ 1947 میں الحاق کے بعد سے وعدوں کے باوجود ہر بھارتی حکومت نے جموں اور کشمیرکی خصوصی حیثیت مسلسل اور آہستہ آہستہ ختم کی۔ اپنی اصل شکل میں اس آرٹیکل کے تحت دفاع، خارجہ امور اور کرنسی کو چھوڑ کر ریاست کو مکمل خود مختاری حاصل تھی۔
نئی دہلی نے عملی طور پر اداروں کی خودمختاری کو کم کیا اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی عمل میں مداخلت کی۔ یہاں تک کہ اتحادی سیاستدانوں کے حق میں انتخابی دھاندلی کروائی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نریندرمودی کی قیادت میں منتخب سیاستدانوں کی گرفتاری بہت خوفناک عمل ہے جو نہرو او اندراگاندھی کے دور حکومت میں سیاستدانوں کی بار بار کی گرفتاریوں سے ملتا جلتا ہے۔ اس طرح کی کارروائیوں سے کشمیری اچھی طرح واقف ہیں۔ کشمیر کی کسی خصوصی حیثیت نے کبھی نئی دہلی میں بھارتی حکومتوں کو کشمیر میں مرضی کے مطابق مداخلت سے نہیں روکا۔ جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے سے سیاسی وعدوں کا کھوکھلا پن ابھر کر سامنے آ گیا ہے۔
اس کے باوجود آرٹیکل 370 نے بھارت کو جموں اور کشمیر کو حصہ قرار دینے کے دعوے کی بنیاد فراہم کی۔ کشمیر پر ہمسایہ پاکستان کے دعوے کو کامیابی سے کمزور کیا (جس کا بھارت کی طرح دعویٰ ہے کہ پورا کشمیر اس کا ہے جبکہ اس کا ایک حصہ اس کے زیر انتظام ہے) پاکستان کشمیر کے ایک حصے میں بھارتی انتظام کو غیرقانونی کہتا ہے۔
آرٹیکل 370 نے کشمیری سیاستدانوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ بھارت کے جمہوری ڈھانچے کے ساتھ تعاون کریں اور تاریخی طور پر کمزور ثابت ہونے والا وہ دو قومی نظریہ مسترد کر دیں جس کا دعویٰ ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ اسی نظریے کی بنیاد پر تکلیف دہ تقسیم ہوئی۔
آرٹیکل 370 ختم کرکے بی جے پی جموں اور کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی آئینی بنیاد کو کمزور کیا ہے۔ ایسا قومی اتحاد کے نام پر کیا گیا جو ایک ظالمانہ اقدام ہے۔
آرٹیکل 370 ختم ہونے سے علاقے بھارت کے خلاف معاندانہ رویے میں شدت آئے گی۔ نئے قانون کے تحت جموں اور کشمیر کو یونین کا علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ یونین کے علاقے کے طور پر یہ امکان ہے کہ اس کا نظام نئی دہلی سے براہ راست چلایا جائے گا اوردوسری بھارتی ریاستوں کے مقابلے میں اس کی قانون ساز اسمبلی کو کم اختیارات حاصل ہوں گے۔
اس صورت حال نے جموں اور کشمیر کے لوگوں کو بھارتی حکومت کے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور وہ رکاوٹ ختم ہو گئی ہے جو سیاسی عہدے کے لیے آپس میں مقابلہ کرنے والے ریاستی سیاستدان اب تک قائم کرتے آئے ہیں۔
اب عام کشمیریوں کی آنکھیں مزید کھل سکتی ہیں اور ممکن ہے کہ وہ اس بھارتی فوج کے خلاف ردعمل کا مظاہرہ کریں جسے قابض فوج خیال کیا جاتا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ ہم تشدد اور لوگوں کی تکالیف میں اضافہ دیکھیں جن کا علاقے کی بہت سی برادریوں نے 1989 سے سامنا کیا ہے۔
بھارت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ ایٹمی اسلحے سے لیس دونوں ملک 1947 میں آزادی کے بعد کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ پاکستان کشمیر پر بھارتی دعویٰ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے اور اب ممکن ہے کہ پاکستان اس دعوے کو کمزور کرنے کے لیے سفارتی اور نیم فوجی اقدامات میں اضافہ کر دے۔ ایسا ہوا تو علاقے میں مزید عدم استحکام پھیلے گا اور بی جے پی کی انتخابی فتح اسے مہنگی پڑ سکتی ہے۔
© The Independent