امریکی فوج نے کہا ہے کہ بحیرہ اسود پر پرواز کرنے والے ایک روسی لڑاکا طیارے نے منگل کو ایک امریکی ڈرون پر ایندھن گرا دیا اور بعد ازاں روسی طیارہ اس کے ساتھ ٹکرا گیا، جس کے نتیجے میں ڈرون سمندر میں گر گیا، تاہم روس نے اس کی تردید کی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی فوج نے روسی طیارے کی اس کارروائی کو’لاپروائی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
امریکی یورپی کمان نے کہا کہ دو روسی لڑاکا طیاروں ایس یو۔27 نے بین الاقوامی پانیوں میں بغیر پائلٹ کے امریکی ایم کیو۔9 ریپر کو روکا اور ایک طیارے نے امریکی ڈرون کے پنکھے کو کاٹ دیا۔
امریکی یورپی کمان کا کہنا ہے کہ ’ایس یو۔27 طیاروں نے تصادم سے پہلے کئی بار ایندھن گرایا اور ایم کیو۔9 کے سامنے آ کر لاپروائی، ماحول کے لحاظ سے غیر مناسب اور غیر پیشہ ورانہ انداز میں پرواز کی۔‘
دوسری جانب روس نے اپنے جنگی طیاروں کے ذریعے امریکی ڈرون کو سمندر میں گرانے کی تردید کی، جس کے بارے میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ وہ نگرانی اور خفیہ معلومات کے حصول کے لیے معمول کی پرواز پر تھا۔
روسی وزارت دفاع کے مطابق: ’تیزی سے ہونے والے عمل کے نتیجے میں بغیر پائلٹ کے ڈرون ایم کیو۔9 بلندی کھونے کے بعد بے قابو ہوا اور پانی کی سطح سے ٹکرا گیا۔‘
روسی وزارت دفاع کا مزید کہنا تھا کہ روسی طیاروں کا امریکی ڈرون کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا اور نہ ہی انہوں نے ہتھیار استعمال کیے۔
دوسری جانب امریکی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے احتجاج کے لیے امریکہ میں روس کے سفیر کو طلب کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے بعد میں کہا کہ ’ظاہر ہے ہم روسیوں کے انکار کی تردید کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ گر جانے والے ڈرون کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
کربی نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا کہ ’بہت زیادہ تفصیل میں جائے بغیر میں جو کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم نے اس مخصوص ڈرون، اس مخصوص طیارے کے حوالے سے اپنی برابری کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ظاہر ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ کسی اور کے پاس کوئی ایسی چیز ہو یا وہ اسے استعمال کرے جو ہماری ہے۔ ‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کربی نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ بحیرہ اسود پر روسی مداخلت عام ہے، لیکن حالیہ کارروائی ’قابل ذکر ہے کیوں کہ یہ بہت غیر محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ تھی۔ درحقیقت یہ لاپروائی تھی۔‘
برسلز میں نیٹو کے سفارت کاروں نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں توقع نہیں تھی کہ یہ فوری طور پر مزید محاذ آرائی کی صورت اختیار کر لے گا۔
ایک مغربی عسکری ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سفارتی ذرائع روس اور امریکہ کے درمیان کسی بھی نتیجے کو محدود کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں سفارتی چینلز اس کو کم کر دیں گے۔‘
گذشتہ سال فروری میں یوکرین پر روس کے حملے نے ماسکو اور نیٹو اتحاد کے درمیان براہ راست تصادم کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ نیٹو کیئف کو اس کے دفاع میں مدد فراہم کر رہا ہے۔
گذشتہ برس نومبر میں مشرقی پولینڈ میں میزائل حملے کی اطلاعات نے کچھ وقت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ بعدازاں مغربی فوجی ذرائع نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ فضائی دفاع کے لیے داغا جانے والا یوکرین کا میزائل تھا، روس کا نہیں۔