پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ’ملک بھر میں عمران خان کے خلاف درج شدہ مقدمات میں گرفتاری کو روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔‘
پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار فاطمہ علی کو بتایا کہ ’لاہور ہائی کورٹ بھی 11 بجے اپنی سماعت شروع کرے گا جبکہ ہمارے کارکن عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر موجود ہیں۔‘
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سر دست انہیں معاملات انتہا کی طرف جاتے محسوس نہیں ہو رہے۔
دوسری جانب نگران صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پولیس نے پہلے بھی جو ایکشن کیا وہ عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے کیا۔ ’آج دیکھتے ہیں کہ عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے۔‘
عامر میر کا کہنا تھا کہ پولیس پر حملہ کرنے والے افراد کی شناخت ہو چکی ہے جن میں سے 24 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ آئی جی گلگت بلتستان نے جی بی پولیس کے اہلکاروں کو واپس بلا لیا ہے اب وہ زمان پارک کے باہر موجود نہیں ہیں۔
ادھر پنجاب حکومت کے ایک معتبر ذریعے نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جمعرات کی شب پی ٹی آئی رہنماؤں کی چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب سے ملاقات کے دوران یہ طے پایا کہ عمران خان کو ہفتے کو لاہور سے اسلام آباد پیشی کے لیے محفوظ راستہ اور سکیورٹی مہیا کی جائے گی۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ہائی کورٹ کے حکم کے تحت یہ ملاقات ہو رہی تھی اس لیے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
گذشتہ روز اسلام آباد کی ایک ذیلی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے گرفتاری وارنٹ برقرار رکھتے ہوئے اسے معطل کرنے سے متعلق درخواست کو خارج کر دیا ہے اور 18 مارچ کو انہیں عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم برقرار رکھا تھا۔
جمعرات کو توشہ خانہ کیس کی ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کا وارنٹ بحالی کا فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس کے بعد جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق تاحال مقامی عدالت کو موصول نہیں ہوا۔
اس دوران عمران خان کی درخواست کی اصل کاپی عدالت میں جمع کروائی گئی اور عدالت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ان کے کونسل کو طلب کیا۔
وکیل خواجہ حارث نے وارنٹ سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ 18 مارچ قریب ہے، وارنٹ گرفتاری منسوخ کیے جانے چاہییں، جس کا عدالت کے پاس اختیار ہے۔ انہوں نے کہا، ’عدالت نے وارنٹ ختم نہیں کرنے بلکہ وقتی طور پر اسے معطل یا عمل درآمد سے روکنا ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ عمران خان دو دن بعد عدالت میں پیش نہ ہوں۔‘
جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ ’اگر مزاحمت نہ ہوتی تو پھر مسئلہ نہیں تھا، انہیں بتائیں انہوں نے مزاحمت نہیں کرنی ہوتی۔‘
وکیل نے کہا کہ پولیس کے واقعے کا مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ انہوں نے درخواست کی کہ عدالت لاہور واقعے کو موجودہ کیس کے ساتھ ملا کر نہ دیکھے۔
’پولیس اہلکاروں کے خاندان کو کیا جواب دوں جن کے بیٹوں پر لاہور میں ظلم ہوا؟‘
انسپیکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد اکبر ناصر خان نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کے کسی نمائندے کو عمران خان سے نہیں ملنے دیا گیا۔ انہوں نے کہا، ’پولیس پر پیٹرول بم پھینکے گئے اور پتھراؤ کیا گیا۔ وارنٹ کی تعمیل کے کیے جانے والے پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا گیا، ان کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا۔ میں پولیس اہلکاروں کے خاندان کو کیا جواب دوں جن کے بیٹوں پر لاہور میں ظلم ہوا؟ ایک شخص کو اگر رعایت ملتی ہے تو دیگر کو بھی ملنی چاہیے۔‘
جج ظفر اقبال کے املاک کو نقصان پہنچنے سے متعلق استفسار پر آئی جی نے بتایا کہ 10 گاڑیاں اور واٹر کینینز جلائی گئیں۔
’فیصلہ پڑھتے ہوئے مزہ آئے گا‘
سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا وارنٹ جاری ہونے کے بعد عمران خان کی تیسری دفعہ درخواست آئی ہے۔ ’جب تک ملزم اپنے آپ کو عدالت کے حوالے (سرینڈر) نہیں کرتا، عدالت درخواست نہیں سن سکتی۔‘
بعد ازاں عدالت نے عمران خان کے ناقابل وارنٹ گرفتاری برقرار رکھتے ہوئے اسے معطل کرنے کی درخواست خارج کر دی ہے۔ عدالت نے پی ٹی آئی چیئرمین کو 18 مارچ کو عدالت پیش کرنے کا حکم بھی برقرار رکھا ہے۔
فیصلہ سناتے وقت جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ ’فیصلہ پڑھتے ہوئے مزہ آئے گا۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ وہ 18 مارچ کو عدالت میں پیش ہوں گے۔
نامہ نگار ارشد چوہدری کے مطابق لاہور میں صحافیوں سے ہونے والی ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں۔‘
اس موقعے پر عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ’میری گرفتاری عدالت میں پیش ہونے کے لیے نہیں مجھے مارنے کے لیے ہے۔‘
عمران خان نے مزید کہا کہ جب میں نے کہہ دیا تھا کہ عدالت میں پیش ہوں گا تو معلوم نہیں پھر یہ سارا ڈراما کیوں رچایا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق مجھے ایسی جگہ بلایا جا رہا ہے ’جس کے بارے میں مجھے سکیورٹی خدشات ہیں۔ میں نے عدالت میں پیش ہونے سے کبھی انکار نہیں کیا۔‘
انتخابات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘انتخاب کسی صورت 90 دن سے آگے نہیں جانے دیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو آئینی تحریک چلائیں گے۔‘
لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مینار پاکستان پر اتوار کو جلسہ کرنے سے روک دیا ہے۔ ایک اور درخواست پر عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے لیے آپریشن روکنے میں بھی جمعے تک توسیع کر دی ہے۔
جمعرات کو پی ٹی آئی کے رہنما حماد اظہر کی لاہور میں دفعہ 144 کے نفاذ کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
دوران سماعت عدالت نے تحریک انصاف کو اتوار کو مینار پاکستان کے گراونڈ میں جلسہ کرنے سے روک دیا ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ سب کو مل کر معاملے کا حل نکالنا چاہیے، اگر آپ نے جلسہ کرنا ہے تو پہلے انتظامیہ کے ساتھ بیٹھیں، 15 دن پہلے پلان کریں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ صبح اٹھیں اور جلسے کا اعلان کر دیں۔‘
عدالت کا کہنا تھا کہ ’انتظامی معاملات کو بھی دیکھنا ہے، آپ آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری کے ساتھ آج بیٹھیں اور نظام بنائیں۔‘
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اتوار کو مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے زمان پارک میں پولیس آپریشن روکنے کے حکم میں بھی کل بروز جمعہ تک توسیع کر دی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’پہلے ہی اس معاملے پر بڑی جگ ہنسائی ہوچکی ہے، بہتر ہے فریقین بیٹھ کر معاملہ افہام تفہیم سے حل کریں۔‘
یہ حکم لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے زمان پارک میں پولیس آپریشن روکنے کے لیے فواد چوہدری کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کے بعد جاری کیا۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ فواد چوہدری کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ جاری کر دیا ہے۔‘
عدالت نے فواد چوہدری کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’درخواست گزار کہاں ہیں؟ 10 بجے کا وقت تھا یہ آپ کی سنجیدگی ہے کہ درخواست گزار عدالت میں نہیں ہیں۔‘
وکیل فواد چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ ’اسلام آباد کی مقامی عدالت میں فیصلہ محفوظ ہے۔‘
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’سیکشن 76 پڑھیں یہ تو کوئی معاملہ ہے ہی نہیں۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اس لیے ہے کہ کوئی قانون نہیں پڑھتا بس باتیں کرتے ہیں۔‘
عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ ’ہر چیز کا حل قانون اور آئین میں موجود ہے۔‘
اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے سیکشن 76 (وارنٹس سے متعلق سیکشن) پڑھ کر سنایا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’فریقین نے پورے سسٹم کو جام کیا ہوا ہے، کبھی آپ اس عدالت میں آتے ہیں کبھی آپ اسلام آباد ہائی کورٹ جاتے ہیں۔‘
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’آپ دونوں پارٹیوں نے ہی معاملہ سیاسی بنایا ہے۔ بس قانون کو فالو کرنے کی ضرورت ہے، ساری قوم کو مصیبت ڈالی ہوئی ہے۔‘
عدالت نے فواد چوہدری سے استفسار کیا کہ سکیورٹی کا کیا معاملہ ہے؟
فواد چوہدری نے جواب دیا کہ ’سکیورٹی کا مسئلہ بڑا سنجیدہ ہے، عمران خان اسلام آباد کی چار عدالتوں میں پیش ہوئے، پانچویں میں نہیں ہوئے۔
’ایف ایٹ عدالت میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کی 100 فیصد مصدقہ معلومات تھیں۔‘
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’ہمارے نظام میں سکیورٹی لینے کا قانون موجود ہے، سکیورٹی لینے کا ایک باقاعدہ طریقہ کار موجود ہے۔ عمران خان چار عدالتوں میں پیش ہوئے، لیکن ایک عدالت ایف ایٹ کچہری میں پیش نہیں ہوئے۔‘
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ ’ہم نے اپنا موقف عدالت کے سامنے رکھا تھا کہ سکیورٹی خدشات ہیں جن کے باعث ایف ایٹ کچہری کی عدالت میں پیش نہ ہوسکے، عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے۔‘
آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم کسی ایک کا بھی نقصان نہیں چاہتے، ہم نہیں سمجھتے کہ شہر کا کوئی بھی علاقہ نو گو ایریا بن جائے۔‘
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’یہ معاملہ انکوائری طلب ہے کہ دونوں طرف سے بدنیتی شامل تھی یا نہیں۔ آپ لوگوں نے جو بھی ریلی یا جلسہ کرنا ہو تو اس کا 15 دن پہلے پلان دیں۔ کوئی شادی بھی کرتا ہے تو پہلے پلان کرتا ہے خدا کا واسطہ ہے نظام کو چلنے دیں۔‘
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے عدالت میں بتایا کہ ’جب عمران خان لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تو سکیورٹی دی گئی تھی۔‘
عدالت نے فواد چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ اپنے آپ کو نظام کے اندر لائیں۔ آپ کو پالیسی فراہم کرتے ہیں اس پر عمل کریں۔‘
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آ گیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ ’ہم نے وارنٹ کے معاملے کو ٹچ نہیں کیا، لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے وارنٹس پر عملدرآمد نہیں روکا۔‘
اس کے بعد عدالت نے سماعت آپریشن روکنے کے حکم میں کل تک توسیع کرتے ہوئے ملتوی کر دی ہے۔
زمان پارک کشیدگی پر اسلام آباد سیشن عدالت کے سوالات، الیکشن کمیشن طلب
اسلام آباد سے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار قرۃ العین شیرازی کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل سیشن جج نے دو روز سے زمان پارک میں جاری کشیدگی کے حوالے سے مختلف سوالات اٹھاتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو طلب کر لیا۔
جمعرات کو توشہ خانہ کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں ہوئی، جہاں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث پیش ہوئے۔
خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے پی ٹی آئی چئیرمین کے وارنٹ بحالی کا فیصلہ پڑھ کر سنانے کے بعد معزز جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ فیصلہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق تاحال مقامی عدالت کو موصول نہیں ہوا۔‘
جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ ’کیس قابل سماعت ہونے سے متعلق الیکشن کمیشن کو نوٹس دیا جانے چاہیے۔ یہ مسئلہ ایک سیکنڈ میں حل ہو سکتا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا: ’عمران خان کہاں ہیں؟ عمران خان ذاتی حیثیت میں عدالت میں کہاں پیش ہوئے ہیں؟ انڈرٹیکنگ کا کانسیپٹ کہاں پر ہے؟ ایسا کیوں ہوا؟‘
وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’حکومت کی غلطی سے ایسا ہوا۔ میں قانون کی سائیڈ پر ہوں اور خود کہہ رہا ہوں کہ یہ اقدام قابل مذمت ہے، جو کچھ ہوا اس کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ درخواست گزار کو بھی احساس ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جج ظفر اقبال نے دوبارہ عمران خان کے عدالت آنے سے متعلق ریمارکس دیے کہ ان کے آنے سے معاملہ ختم ہو جاتا اور عدالتی کاروائی شروع ہو جاتی۔ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ حکومت کو حملہ نہیں کرنا چاہیے تھا، پورے پنجاب کی پولیس زمان پارک لائی گئی۔
جج ظفر اقبال نے استفسار کیا کہ ’یہ ناقابل ضمانت وارنٹ ہیں۔ اس موقع پر وارنٹ میں کیا ترمیم کریں؟ وارنٹ یا منسوخ ہو سکتے ہیں یا عمل درآمد ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’مجھے بتائیں مزاحمت کیوں ہوئی؟ کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ جو پیسے خرچ ہوئے وہ آپ کے اور ہمارے ہی تھے۔ مزاحمت پر امن بھی ہو سکتی تھی، پلے کارڈ اٹھا لیتے۔ عمران خان عدالت آ جاتے تو تمام مسائل حل ہو جاتے، اگر پیش کرنے کی تاریخ میں دیر ہے تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ پولیس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہے۔‘
جس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے درمیانہ راستہ نکالنے کا کہا ہے اور ’اگر عدالت سمجھتی ہے کہ شورٹی جینوئن ہے تو گرفتاری کی ضرورت نہیں۔‘
اس دوران عمران خان کی انڈرٹیکنگ کی اصل کاپی بھی عدالت میں جمع کروائی گئی۔
اس کے بعد جج ظفر اقبال نے سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ان کی کونسل کو آج ہی طلب کر لیا۔