اسلام آباد ہائی کورٹ: عمران خان کے وارنٹ گرفتاری برقرار

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو ریلیف دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھے ہیں۔

پاکستانی حکام تحمل کا مظاہرہ کریں: ایمنسٹی انٹرنیشنل

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے لاہور کی کشیدہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

تنظیم نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے تحت قانونی، ضروری اور متناسب طریقے سے امن و امان کو برقرار رکھیں۔

’ہم حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کا ردعمل ہر وقت انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے معیارکے مطابق ہو۔'


پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شبلی فراز نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور اسی وجہ سے وہ عدالت نہیں گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شبلی فراز کا کہنا تھا کہ وفاقی دارالحکومت کی کچہری میں تنگ گلیاں ہیں اور وہاں پہلے بھی قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔

’ہمیں پتا چلا کہ ان (عمران خان) پر قاتلانہ حملے کا منصوبہ بن رہا ہے، ہم اپنی سکیورٹی کے خدشات کی بنیاد پر عدالت نہیں گئے۔

’لوئر کورٹ میں تنگ گلیاں ہیں وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے، وہاں پہلے بھی قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ عدالت کی طرف سے جو سمن عمران خان کو موصول ہوا اس میں حاضری کے لیے 18 مارچ کی تاریخ درج ہے جبکہ زمان پارک پر 14 کو ہی ’لشکر کشی‘ شروع کر دی گئی۔

شبلی فراز کا مزید کہنا تھا کہ زمان پارک پر پولیس کی کارروائی ثبوت ہے کہ عمران خان کو سیاسی طور پر شکست نہ دے سکنے کے بعد جھوٹے مقدمات کے ذریعے انہیں روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

’پی ٹی آئی ان کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئی ہے اور ایک شخص کو گرفتار کرنے کے لیے جنگ کا سماں پیدا کیا گیا۔ ‘

پی ٹی آئی رہنما نے پولیس پر لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک میں موجود خواتین پر ربڑ کی گولیاں چلانے کا الزام بھی لگایا۔

’ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ زمان پارک میں لشکر کشی بند کی جائے۔ پانچ دنوں میں جو ہوا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ‘

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ قانون کی بالا دستی اور آئین کی عمل داری کو یقینی بنانے کا وقت آ گیا ہے اور آئین و قانون میں کسی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات کا کروایا جانا واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کے بعد سب انتخابات کروانے سے متعلق بہانے بنا رہے ہیں۔


اسلام آباد ہائی کورٹ: عمران خان کی استدعا مسترد، وارنٹ گرفتاری برقرار

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھے ہیں اور انہیں حکم دیا ہے کہ وہ ٹرائل کورٹ میں بیان حلفی جمع کروائیں۔

توشہ خانہ فوجداری کیس میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری منسوخی کی درخواست پر عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھے ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے آج سماعت کے آغاز میں استفسار کیا کہ 13 مارچ کو عمران خان کہاں تھے؟ اس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ وہ اس دن گھر پر تھے۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کسی بھی کریمنل (فوجداری) کیس میں سمن جاری ہو تو کیا عدالت پیش ہونا ضروری نہیں؟

وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جب شکایت دائر کرنے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے تو وارنٹ جاری کرنے کی کارروائی بھی درست نہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت افسوس ناک ہے، عمران خان نے انڈرٹیکنگ دی ہے کہ آئندہ سماعت پر پیش ہو جائیں گے، وارنٹ کا اجرا بھی صرف عدالت میں حاضری کے لیے ہے۔

اس موقعے پر خواجہ حارث نے وٹس ایپ پر موصول ہونے والی انڈرٹیکنگ عدالت میں دکھائی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کی عزت اور وقار بہت اہم ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ قانون سب کے لیے برابر نہ ہو۔

’اگر ایک آرڈر ہو گیا تو وہ کاالعدم ہونے تک موجود رہتا ہے، اس پر عمل ہونا چاہیے۔‘ 

انہوں نے لاہور میں عمران خان کی گرفتاری پر پی ٹی آئی کارکنوں کی مزاحمت کرنے سے متعلق ریمارکس دیے کہ ’لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم کیا چہرہ دکھا رہے ہیں؟ ہم تو سنتے تھے کہ قبائلی علاقوں میں ایسا ہوتا ہے۔

’ہم دنیا کو کیا بتا رہے ہیں کہ قانون پر عمل نہیں کریں گے؟ ہمارے پاس مسل مین نہیں جو جا کر طاقت دکھائیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس کیس میں تو ریمانڈ بھی نہیں ہونا، صرف گرفتار کر کے پیش کرنا ہے۔

’ایک سیاسی جماعت کے کارکن پولیس پر حملے کر رہے ہیں۔ یہ ریاست پر حملہ ہے، پولیس والے وہاں ریاست کی طرف سے ڈیوٹی کر رہے ہیں جبکہ حملہ کرنے والے بھی ہمارے ہی بچے ہیں۔ کیا برطانیہ میں کوئی پولیس والے کی وردی کو ہاتھ لگا سکتا ہے؟‘

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر گذشتہ انڈرٹیکنگ پر عمل ہو جاتا تو آج یہ سب کچھ نہ ہوتا۔

عدالت نے بعد ازاں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھے۔


لاہور ہائی کورٹ کا زمان پارک میں پولیس کارروائی فوری روکنے کا حکم

صوبہ پنجاب کے نگران صوبائی وزیر عامر میر نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک زمان پارک میں پولیس کی کارروائی فوری روکنے کا حکم جاری کیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے لیے لاہور میں جاری کارروائی روکنے کا حکم دے دیا۔

نامہ نگار فاطمہ علی کے مطابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور فواد چوہدری کی درخواست پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے بدھ کو اس معاملے پر سماعت کی۔

 دوران سماعت جسٹس طارق سلیم کا کہنا تھا کہ ’شہر میں امن کے لیے پولیس اپنا آپریشن روک دے۔‘

 انہوں نے کہا کہ ’لاہور میں پی ایس ایل بھی ہو رہا ہے۔‘

عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب، چیف سیکرٹری، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب، اسلام آباد پولیس افسران سمیت وفاقی حکومت کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت کے سامنے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے موقف اختیار کیا کہ ’پیٹرول بم سے ہماری گاڑیاں جلا دی گئیں۔ پی ایس ایل کی سکیورٹی کو دیکھنا ضروری تھا۔ رینجرز کی گاڑیوں پر پٹرول بم گرایا گیا۔ صبح سے صورت حال یہ ہے ساری گرین بیلٹ خراب کر دی۔‘

’سرکاری چیزیں برباد کر دیں، عدالت وارنٹ ختم کر دیتی ہم واپس آ جاتے۔ جنہوں نےخرابی کی ہے انہیں پکڑنا ہے۔ ہمارے پاس ویڈیوز موجود ہیں۔  ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔‘

آئی جی کے موقف پر عدالت نے کہا کہ ’اس پر کیا کہیں گے کہ اگر ہم اس آپریشن کو ابھی وقتی طورپر روک دیں کیونکہ اسلام آباد میں بھی درخواست ہے۔‘

 اس پر آئی جی نے جواب دیا کہ ’سر ہم نے بندے پکڑنے ہیں جنہوں نے املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔‘

 جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ ’مجھے شہر میں امن چاہیے۔ آپ ابھی اپنا آپریشن روک دیں۔ شہر میں پی ایس ایل بھی ہو رہا ہے۔‘

سماعت کے بعد عدالت نے عمران خان کی گرفتاری کے لیے جاری آپریشن جمعرات کی صبح 10 بجے تک روکنے کا حکم دے دیا۔

تاہم عدالت نے پولیس کو مال کینال پل، دھرم پورہ پل اورٹھنڈی سڑک پر 500 میٹر پیچھے رہنے کی اجازت دی ہے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے نگران صوبائی وزیر عامر میر نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’لاہور ہائی کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک زمان پارک میں پولیس ایکشن فوری روکنے کا حکم جاری کیا ہے۔‘

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات پاکستان فرخ حبیب نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’لاہور ہائی کورٹ نے پولیس کو زمان پارک آپریشن فوری روکنے کا حکم دے دیا ہے۔ جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں آتا تب تک پولیس آپریشن روک دے۔‘


پولیس کو زمان پارک سے وقتی طور پر ہٹا لیا گیا: پنجاب حکومت

پنجاب کی نگران حکومت کے وزیر اطلاعات عامر میر نے بدھ کو بتایا کہ لاہور میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک سے پولیس کو وقتی طور پر ہٹایا لیا گیا ہے کیوں کہ مظاہرین کی تعداد زیادہ ہے اور اہلکاروں کے پاس اسلحہ نہیں۔

توشہ خانہ کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس منگل سے لاہور میں موجود ہے، لیکن زمان پارک کے باہر پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے مزاحمت کے باعث کشیدگی برقرار ہے۔

صوبائی نگران وزیر اعلاعات عامر میر کے مطابق: ’پولیس اہلکاروں کو مسلسل پتھروں، ڈنڈوں اور غلیلوں سے مارے جانے والے کنچوں کا سامنا ہے۔ پولیس کو پیچھے ہٹانا حکمت عملی کا حصہ ہے اور یہ سلسلہ وقتا فوقتاً جاری رہے گا۔‘

نگران وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر نے مزید کہا کہ ’قانون کی عمل داری اور عدالتی احکامات کی تعمیل تک ایکشن جاری رہے گا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار فاطمہ علی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکنان نے سرکاری و غیر سرکاری املاک کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اور رینجرز کی درجنوں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے اور 67 پولیس اہلکار پتھراؤ کے نتیجے میں زخمی ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ کے لاہور میں آج میچ ختم ہونے کے بعد پولیس واپس سرگرم ہو جائے گی۔

پنجاب کے نگراں وزیر اطلاعات کے کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے ڈی جی پی آر کی گاڑیوں، مال روڈ، جیل روڈ اور مین بلیوارڈ کے ٹریفک سگنلز کو نشانہ بنانے کے علاوہ پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) اور پی ایس ایل کے بل بورڈز بھی توڑ دیے ہیں۔

عامر میر کا کہنا تھا: ’جس دن عمران خان نے عدالت میں پیش ہونا تھا وہ نہیں ہوئے اور یہ بتاتے رہے کہ وہ زخمی ہیں اور ان کی جان کو خطرہ ہے لیکن اسی دن انہوں زمان پارک سے داتا دربار تک ایک ریلی کی قیادت کی جس میں انہیں نہ اپنے زخمی ہونے کا احساس ہوا اور نہ ہی جان کو خطرہ محسوس ہوا۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ایک وقت میں عمران خان جیل بھرو تحریک میں گرفتاری دینا چاہ رہے تھے اور اب گرفتاری سے گھبرا رہے ہیں۔

’پاکستان کے تقریباً تمام وزرائے اعظم نے مقدمات کا سامنا کیا ہے، عدالتوں میں پیش ہوئے اور جیلیں بھی کاٹیں۔ عمران خان کو ان کی مثالیں مد نظر رکھنی چاہییں۔‘

انہوں نے کہا کہ عمران خان کو سیاسی لیڈر کے طور پر اپنا تاثر برقرار رکھنا چاہیے اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جن سے اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ وہ ایک جتھہ بردار، غیر ریاستی عنصر ہیں۔

نگراں حکومت کی جانبداری کے تاثر سے متعلق ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیر اطلاعات نے جواب میں کہا کہ ’کیا نگراں حکومت کے دور میں قانون اور آئین معطل ہو جاتے ہیں؟ نگران حکومت عدالتی احکامات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس میں اس کی ذاتی خواہش کا کوئی عمل دخل نہیں۔‘


عمران خان افرا تفری پھیلانا چاہتے ہیں: مریم اورنگزیب

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ عمران خان پاکستان میں خانہ جنگی چاہتے ہیں، پاکستان میں افرا تفری چاہتے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت انہیں گرفتار کر رہی ہے۔

بدھ کو سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’حکومت کا عمران خان کی گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر حکومت کو گرفتار کرنا ہوتا تو ریاستی طاقت بھی موجود تھی اور اختیار بھی۔‘

مریم اورنگزیب نے کہا کہ ’پولیس کے 65 افسران عدالتی حکم پر عملدرآمد کرانے کے لیے زخمی ہوچکے ہیں۔ گلگت بلتستان کی پولیس کو استعمال کرکے پنجاب کی پولیس اور رینجرز کے سر پھاڑے جا رہے ہیں۔ پولیس کے پاس کوئی اسلحہ موجود نہیں ہے۔‘

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’میڈیا کو چاہیے کہ عوام کو آگاہ کرے کہ پولیس عدالتی حکم پر عمل درامد کرانے کے لیے وہاں موجود ہے جس پر جتھے حملہ کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عدالتوں کو سمجھنا پڑے گا کہ ’اگر آج عمران خان عدالتی حکم پر پیش نہیں ہوتے، کارروائی ملتوی ہوتی ہے، ضمانتیں ملتی ہیں، سماعت موخر ہوتی ہے، وارنٹس کو معطل کیا جاتا ہے تو پھر پاکستان کے ہر شہری کو یہ گنجائش فراہم کرنی پڑے گی۔‘

وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ’پولیس جس عدالت کے جاری احکامات پر عمل درآمد کرانے جاتی ہے وہی عدالت ریلیف دے دیتی ہے اور وارنٹس کو معطل کر دیتی ہے۔ اگر عدالت ریلیف دینا چاہتی ہے تو پھر یہ وارنٹ کیوں جاری کر رہی ہے؟

’اگر ریلیف دینا ہے تو پھر پولیس اور رینجرز کے سر نہ پھڑوائیں کیوں کہ وہ آپ کے احکامات پر عمل درآمد کرانے وہاں جا رہے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف عدالتی احکامات کو پورا کرانے کے لیے پولیس والوں کے سر پھٹ رہے ہوں اور دوسری طرف ان ہی عدالتوں سے عمران خان کو ریلیف مل رہا ہو۔‘

مریم اورنگزیب نے کہا کہ ’پولیس کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہے اور یہ آنسو گیس اس لیے استعمال کی جا رہی ہے کیوں کہ جتھہ حملہ آور ہو رہا ہے۔‘


زمان پارک کے باہر موجود کارکنان میرے قابو میں نہیں: عمران خان

اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ ’زمان پارک کے باہر موجود کارکنان اب میرے قابو میں نہیں ہیں۔‘

بدھ کو اپنے ایک ویڈیو خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’جو بھی لوگ جو پاور میں بیٹھے ہیں میں آپ کو بتا دوں کہ ملک کو ادھر لے کر جا رہے ہیں کہ میرے ہاتھ سے چیز نکل جائے گی۔‘

انہوں نے زمان پارک کے باہر موجود پی ٹی آئی کارکنوں کے حوالے سے کہا: ’یہ جو لڑکے تھوڑے سے تھے، اتنی شدید ٹیئر گیسنگ میں، پولیس کی اتنی بھاری نفری کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں کہ کہیں یہ چیئرمین کو اٹھا کر جیلوں میں لے جاکر تشدد نہ کریں اور انہیں خوف یہ ہے کہ انہوں نے ہی قتل کرنے کی کوشش کی تھی اور یہی اب جیل میں لے کر جا رہے ہیں۔ کسی کو اعتماد نہیں ہے۔‘

اس سے قبل پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنی گرفتاری کی کوشش کو ’لندن میں کیے گئے معاہدے‘ کا حصہ قرار دیا تھا۔

بدھ کی صبح چار بجے اپنے ویڈیو پیغام میں عمران خان نے کہا تھا: ’لندن میں کیے گئے معاہدے کی وجہ سے مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ معاہدہ کیا گیا تھا کہ عمران خان کو جیل میں ڈالنا ہے اور نواز شریف کے کیسز معاف کرنے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے 18 تاریخ کو عدالت میں پیش ہونے کا شیورٹی بانڈ گرفتار کرنے کے لیے آنے والے ڈی آئی جی اسلام آباد کو دیا تھا لیکن انہوں نے جان بوجھ کر نہیں لیا۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’جس طرح پولیس نے ہمارے لوگوں پر حملہ کیا اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ تھوڑے سے لوگوں پر اس طرح سے حملہ کیا، نقصان پہنچایا۔ واٹر کین آنسو گیس، شیلنگ گھر کے اندر کی یہاں ملازم تھے خواتین تھیں۔

تحریک انصاف کے چیئرمین کے مطابق: ’کچھ سمجھ نہیں آئی کہ جب میری ضمانت 18 تاریخ تک تھی اور ان کو معلوم تھا کہ میں کیوں ایف ایٹ کچہری اسلام آباد نہیں جا رہا۔ وہاں دو مرتبہ دہشت گرد کے حملے ہوئے ہیں اور وہاں وکلا بھی اور جج بھی شہید ہوئے ہیں۔ میں وہاں سکیورٹی کی وجہ سے نہیں جا رہا اور انہیں یہ معلوم ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے سیکشن 76 کے مطابق اگر یہ شیورٹی بانڈ گرفتار کرنے کے لیے آنے والے افسر کو دے دیا جاتا ہے تو اس کے بعد وہ گرفتار نہیں کر سکتا۔

’لندن پلان پر باقاعدہ دستخط ہوا ہے کہ عمران خان کو جیل میں ڈالنا ہے، تحریک انصاف کو گرانا ہے اور نواز شریف کے سارے کیسز ختم کرنے ہیں۔ نواز شریف کو یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ مجھے جیل میں ڈالنا لندن پلان کا حصہ ہے اس سے قانون کا تعلق نہیں ہے، نہ میں نے اس میں کوئی جرم کیا ہے۔ اس کے پیچھے صرف بدنیتی ہے۔‘

عمران نے کہا کہ ’میں قوم کو یہ اس لیے بتا رہا ہوں کہ وہ پھر سے تیار ہیں، انہوں نے پھر سے آنا ہے پھر سے ہمارے لوگوں پر آنسو گیس استعمال کریں گے اور باقی سب کچھ چلائیں گے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے پاس اب کوئی جواز نہیں ہے۔‘

اس سے قبل بی بی سی کو دیے جانے والے انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’میں جیل جانے کو تیار ہوں، جیل جانے سے مجھے یا میری سیاست کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ میری گرفتاری کی کوشش سے وہ وعدے پورے کیے جا رہے ہیں جو نواز شریف سے کیے گئے، نواز شریف خود دو بار ملک سے ڈر کے فرار ہوئے ہیں۔‘

عمران خان نے کہا تھا: ’میرے گرفتار ہونے کی صورت میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو پارٹی چلائے گی۔‘


اسلام آباد پولیس لاہور میں موجود

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس کی ٹیم لاہور پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ منگل سے زمان پارک پر موجود ہے جہاں پی ٹی آئی کارکنان ممکنہ گرفتاری پر مزاحمت کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی اسلام آباد پولیس زمان پارک سے عمران خان کو گرفتار نہیں کرسکی ہے۔

زمان پارک کے اردگرد پولیس کی اضافی نفری بھی تعینات کردی گئی ہے۔ عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے لیے پولیس نے تین مختلف اطراف دھرم پورہ، مال روڈ اورسُندر داس کے علاقے سے زمان پارک کی جانب پیش قدمی کی تھی اور وہ زمان پارک کے قریب پہنچ گئی تھی۔

عمران خان نے بھی الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے زمان پارک میں ان کے گھر کے اندر تک آنسو گیس کے شیل فائر کیے ہیں۔

اس موقع پر پی ٹی آئی کے کارکنان نے پولیس پر پتھراؤ کیا، غلیلیں چلائیں، ڈنڈے برسائے اور نعرے بازی کی ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکنان اور پولیس کے درمیان جڑپوں میں ڈی آئی جی اسلام آباد شہزاد بخاری سمیت 34 پولیس اہل کار اور ایک عام شہری سمیت 35 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔


حکومت کا عمران خان کی گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں: مریم اورنگزیب

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت کا عمران خان کی گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں اور گرفتاری کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں۔

میڈیا کو جاری کیے گئے ایک بیان میں مریم اورنگزیب نے کہا کہ ’پولیس صرف عدالتی احکامات کی تعمیل کر رہی ہے تاکہ عمران خان کو کرپشن کے مقدمات میں گرفتار کیا جا سکے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے، عمران خان قانون شکنی کر رہے ہیں، عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور گرفتاری سے بچنے اور بدامنی پھیلانے کے لیے اپنی پارٹی کے کارکنوں، خواتین اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘

لاہور ٹریفک پولیس کی شہریوں کے لیے ہدایت

لاہور ٹریفک پولیس کے ترجمان عارف رانا نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار فاطمہ علی کو بتایا کہ زمان پارک اور اس سے ملحقہ علاقوں میں سکیورٹی کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے لاہور ٹریفک پولیس نے ایک ٹریفک ایڈوائزری جاری کی ہے جس کے تحت کنال روڈ پل، جیل روڈ سے جانب مال روڈ اور زمان پارک بند ہے۔

ظفر علی روڈ کی سے جانب مال روڈ، ڈیوس چوک مال روڈ بند ہے۔ ڈیورنڈ چوک سے جانب سلطان پلی اور ڈیوس چوک(مال روڈ) بند ہے۔

مغلپورہ پل سے جانب دھرم پورہ مال روڈ بھی متبادل راستہ ہے۔

انہوں نے ہدایت دی ہے کہ شہری مال روڈ کی بجائے جیل روڈ اور علامہ اقبال روڈ کو ترجیح دیں۔

لاہور ٹریفک پولیس کے مطابق شہریوں کو متبادل راستے فراہم کیے جارہے ہیں۔


کراچی میں احتجاج پر تین مقدمات درج

کراچی سے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار صالحہ خان کے مطابق عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف سرکاری مدعیت میں تین مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔

کراچی میں عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے خلاف ایم ٹی خان روڈ پر احتجاج کرنے پر پی ٹی آئی کے ایم پی اے شاہ نواز جدون کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف کراچی میں درج ہونے والا یہ تیسرا مقدمہ ہے۔

مقدمہ ڈاکس تھانے میں ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ شام چھ بجے پی ٹی آئی کارکنان سڑک پر پہنچے، شاہ نواز جدون اور طارق جدون کے ہمراہ 90 کے قریب کارکنان تھے، ڈنڈوں اور پتھروں سے لیس افراد نے شاہراہ ایم ٹی خان روڈ بند کر دی۔

ایف آئی آر کے مطابق نیٹی جیٹی پل کی طرف آنے والا روڈ مکمل بند کر دیا گیا، ٹائروں کو آگ لگا کر عوام میں دہشت اور خوف و ہراس پھیلایا گیا۔

ایک مقدمہ کراچی میں پی ٹی آئی رہنما مسرور سیال کے خلاف درج کیا گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق: مسرور سیال نے کارکنان کو ورغلا کر احتجاج کرنے پر اکسایا تھا۔

مقدمہ نیشنل ہائی وے پر احتجاج کرنے پر شاہ لطیف تھانے میں درج کیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق مقدمے میں 250 کے قریب نامعلوم عہدیداران اور کارکنان کے نام بھی شامل کیے گئے ہیں۔

مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’احتجاج کی وجہ سے دونوں اطراف ٹریفک کی آمد و رفت میں خلل پیداہوا، مشتعل افراد نے پتھراؤ کیا اور گاڑیوں کے شیشے توڑے، سرکاری گاڑیوں، موبائیلوں اور عام لوگوں کی گاڑیوں پر ڈنڈے برسائے اور سرکاری املاک کو نقصان بھی پہنچایا گیا۔‘

ایک اور مقدمہ پی ٹی آئی کے رہنما حلیم عادل شیخ کے خلاف کراچی میں درج ہوا۔

ایف آئی آر میں لکھا گیا کہ پی ٹی آئی کے مشتعل کارکنان نے نعرے بازی کی اور موٹر سائیکل کو آگ لگا دی، کار سرکار میں مداخلت اور مزاحمت کی گئی اور پولیس اہل کار مجاہد کو گریبان سے پکڑ کر لے جانے کی کوشش کی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست