متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینیئر ڈپٹی کنوینر مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ان کی جماعت نے نئی حلقہ بندی اور حلقے نہ بڑھانے کے باعث کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا لیکن ’الیکشن نہ لڑ کر بھی کراچی کو جتوایا دیا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ’ہمارے بائیکاٹ کے باعث ووٹ بینک پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ایم کیو ایم نے 2015 کے الیکشن میں 11 لاکھ 78 ہزار ووٹ حاصل کیے، اب الیکشن لڑتے تو 20 لاکھ ووٹ ملتے۔‘
بقول مصطفیٰ کمال: ’حالیہ الیکشن میں تمام جماعتوں کے مشترکہ ووٹ ایم کیو ایم کے 2015 کے الیکشن کے ووٹوں جتنے بھی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کراچی کے عوام نے ایم کیو ایم کے موقف کی تائید کی اور ہمارے بائیکاٹ پر کراچی کے لوگوں نے بھی الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور ووٹ نہیں دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کراچی میں حلقہ بندیوں پر بات کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ’2015 میں شہر کی 98 لاکھ کی آبادی کے لیے 209 نششتیں تھیں۔ 2017 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی 70 لاکھ بڑھ گئی اس حساب سے صرف 30 فیصد نشستوں کا اضافہ کیا گیا۔
’2017 کی مردم شماری کے بعد آبادی کے لحاظ سے کراچی میں 123 یونین کونسلز بڑھتیں، مگر یہ یونین کونسلز نہیں بڑھائی گئیں۔ جب ایم کیو ایم نے بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو سندھ حکومت نے ایم کیو ایم کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کچھ یونین کونسلز کا اضافہ کیا، مگر تاحال کراچی کی آبادی کے لحاظ سے 70 یونین کونسلز نہیں بڑھائی گئیں۔‘
مصطفیٰ کمال کے مطابق: ’حلقہ بندیاں ایسی کی گئیں کہ جہاں ایم کیو ایم کے ووٹر کی اکثریت ہے، وہاں بلدیاتی حکومت کے ایک حلقے میں ووٹر کی تعداد 90 ہزار تک کردی گئی جبکہ جہاں ایم کیو ایم کا ووٹر نہیں، وہاں حلقے میں ووٹر کی تعداد 15 ہزار سے 17 کر دی گئی۔‘
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 15 جنوری کو سندھ کے دو بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات منعقد کروائے گئے تھے، مگر ایم کیو ایم پاکستان نے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے بائیکاٹ کیا تھا۔