اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی مہوش جاوید ایک ڈینٹسٹ ہیں مگر رنگوں سے محبت کے شوق نے انہیں ایک مصورہ بنا دیا ہے۔
ڈاکٹر مہوش جاوید نے 12 سال قبل رنگوں کو بکھیرنے کا کام اس وقت شروع کیا جب ان کی بہن نے انہیں 12 ہزار روپے دیے اور کہا کہ وہ اپنا فن دنیا کو دکھائیں۔ اس وقت مہوش نے ’الوان الحیا‘ (زندگی کے رنگ ) کے نام سے اپنے فن کا آغاز کیا۔
مہوش جاوید نے اندپینڈنٹ اردو سے بات بات کرتے ہوئے بتایا کہ بچپن سے انہیں ڈینٹسٹ بننے کا شوق تھا جسے پورا کرنے کے لیے انہوں نے تعلیم حاصل کی لیکن رنگوں سے بھی ان کا لگاؤ تھا، اس لیے انہوں نے الوان الحیا کے نام سے اپنے برانڈ کا آغاز کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ مختلف چادروں پر نقش و نگار کے ساتھ ان پر ایک کتاب کی طرح شاعری بھی لکھتی ہیں۔
ڈاکٹر مہوش کے مطابق رنگوں سے محبت نے انہیں آرٹسٹ بنا دیا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ آغاز میں ان کے لیے یہ کام اس لیے بھی مشکل تھا کیونکہ ان کے بچے چھوٹے تھے اور گھر سے ان کے لیے نکلنا مشکل تھا۔
’مجھے ایک نمائش میں حصہ لینا تھا جس کے لیے مجھے اپنی پراڈکٹ کی برانڈنگ بھی کرنی تھی، لیکن بعد میں کچھ لوگوں نے ان سے ان لائن پراڈکٹ خرید لی جس سے ان کے لیے آسانی پیدا ہو گئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر مہوش کے مطابق اس برانڈ کا نام ان کی بہن نے منتخب کیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے یہ کام اپنے دوستوں کی مدد سے سیکھا، کیوں کہ شروع میں ان کو گرافک ڈیزائننگ کا بالکل علم نہیں تھا۔ مگر اب وہ اپنی تمام تر ڈیزائننگ کمپیوٹر پر کرتی ہیں اور چادروں اور شرٹس سمیت مختلف شرٹس پر بھی پرنٹنگ کا کام کرتی ہے۔
مہوش جاوید اب تک علامہ اقبال، محسن نقوی، احمد فراز سمیت کئی نامور شعرا کے شعر پرنٹ کر چکی ہیں، جس کی وجہ سے ان کے مطابق انہیں کافی پذیرائی ملی ہے۔ اس کے علاوہ وہ برتنوں اور چائے کی کیتلیوں پر بھی مختلف نقش و نگار کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔
اس کام پر لگنے والے کام اور محنت کے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ ’ایک چادر کی سکرین پرنٹ بنانے میں تقریباً دو سے تین دن لگتے ہیں، اس لیے ہفتے میں دو دن پرنٹنگ کا کام جبکہ باقی اوقات میں ایک کالج میں بطور ڈینٹسٹ کام کرتی ہوں۔ اس کام میں میری ایک بیٹی اور دو بیٹے بھی مدد کرتے ہیں۔‘