راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی صدف نثار گذشتہ تین دہائیوں سے موتیوں کے ذریعے قرآنی آیات کی خطاطی کر رہی ہیں۔
صدف اب تک 60 سے 70 من موتیوں کا کام کر چکی ہیں۔
ان کے بنائے ہوئے فن پاروں کی پاکستان کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں بھی بہت مانگ ہے لیکن وہ اپنے فن پاروں کو خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں آویزاں کرنے کی متمنی ہیں۔
صدف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ اس فن کو موتی کاری یا بیڈز ورک کہتے ہیں اور اس میں خطاطی کے علاوہ پورٹریٹ اور پرچم وغیرہ بھی بنائے جا سکتے ہیں۔
’یہ فن میرے والد صاحب کو قدرت کی طرف سے تحفہ ملا ہے، انہوں نے کسی سے نہیں سیکھا۔
’ان کو دیکھ کر مجھے یہ شوق ہوا۔ انہوں نے اپنی 40 سالہ زندگی میں یہ کام کیا ہے۔ میں بھی بچپن سے یہ کام کر رہی ہوں اور مجھے بھی اس فیلڈ میں تقریباً 30 سال ہو گئے ہیں۔‘
آرٹس کونسل کی طرف سے پورے پاکستان میں صدف کے فن کی نمائشیں ہو چکی ہیں اور انہیں لوک ورثہ کی طرف سے ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں اپنے فن پاروں کی مانگ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’وہاں ہم خود تو نہیں گئے لیکن ہمارا کافی کام وہاں جا چکا ہے۔ وہاں کی کچھ فیملیز ہمارا کام تحفے کے طور پر لے کر گئی تھیں، پھر ان کے پاس کسی نے دیکھا تو کہا آپ کہاں سے لے کر آئے ہیں یہ بہت منفرد کام ہے۔ انہوں نے اس چیز کو پسند کیا اور پھر آرڈرپر ہم سے کام کروایا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدف نثار کے مطابق وہ چاہتی ہیں کہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں ان کے تیار کیے گئے فن پاروں کو آویزاں کیا جائے۔
صدف کا اب تک کا سب سے بڑا فن پارہ دو فٹ چوڑائی اور تین فٹ لمبائی میں کی گئی آیت الکرسی کی خطاطی ہے، جو انہوں نے ایک ماہ تک روزانہ آٹھ گھنٹے کام کر کے تیار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت باریکی کا کام ہے، جس میں سب سے باریک موتی اور سب سے باریک سوئی استعمال ہوتی ہے۔
بقول صدف: ’اصل بات یہ ہے کہ سوئی میں دھاگہ ڈالنے سے ہی لوگ پیچھے ہو جاتے ہیں کہ ہماری نظر کمزور نہ ہو جائے یا ہم کام کریں گے تو ہمارے پٹھے نہ کمزور ہو جائیں یا کمر کی تکلیف نہ ہو جائے ۔ اس وجہ سے لوگ آتے ہیں لیکن مکمل کسی نے نہیں سیکھا ہے۔‘