افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم کارکن مطیع اللہ ویسا کے بھائی کا کہنا ہے کہ انہیں طالبان حکام نے کابل میں گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔
مطیع اللہ ویسا افغانستان کے کئی صوبوں میں بند سکولوں کو کھولنے، تعلیم کے میدان میں عوامی آگاہی بڑھانے اور افغانستان میں ضرورت مند لوگوں میں کتابیں اور پڑھنے کا سامان تقسیم کرنے کے شعبوں میں سرگرم تھے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ لڑکیوں کے بند سکولوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے بھی سرگرم تھے۔
مطیع اللہ کے بھائی عطا اللہ ویسا، جو کہ قلم لار (پین پاتھ) سول سوسائٹی کے کارکن بھی ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے بھائی کو طالبان حکومت کی سکیورٹی فورسز کابل شہر سے لے گئیں، لیکن ان کی گرفتاری کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔
تاہم افغانستان میں طالبان حکومت کے سکیورٹی اداروں نے بی بی سی کو بتایا کیا کہ وہ مطیع اللہ واسع ویسا کو پیر کو رات گئے کابل شہر سے اپنے ساتھ لے گئے، لیکن انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
اس سے قبل طالبان نے خواتین کی تعلیم پر پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ٹی وی پر لائیو شو میں اپنی ڈگریاں پھاڑنے والے پروفیسر کو حراست میں لیا تھا۔ عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغانستان میں طالبان اہلکاروں نے یونیورسٹی میں لڑکیوں کی تعلیم کے حامی پروفیسر مشال کو مارا پیٹا اور گرفتار کرکے اپنے ہمراہ لے گئے۔ طالبان نے پروفیسر مشال کی گرفتاری کی تصدیق کی تاہم مارپیٹ کے الزام کو مسترد کر دیا تھا۔
طالبان حکومت کی وزارت اطلاعات و ثقافت کے ڈائریکٹر عبدالحق حماد نے اپنی ٹویٹ میں بتایا تھا کہ پروفیسر مشال کچھ عرصے سے نظام کے خلاف اشتعال انگیز کارروائیوں میں ملوث تھے اور ان سے سکیورٹی ایجنسیاں تفتیش کر رہی ہیں۔
افغانستان میں اندرون اور بیرون ملک سوشل میڈیا کے بہت سے صارفین نے مطیع اللہ ویسا کی جلد رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اس حوالے سے افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے بھی ٹوئٹر پر مطیع اللہ کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حفاظت سب سے اہم ہے اور تمام قانونی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔
Alarmed by reports that @matiullahwesa famous educator esp. for #girls, leading civil society member & founder of @PenPath1, has been arrested in Kabul by the Taliban dfA. His safety is paramount & all his legal rights must be respected.#ReleaseMatiullahWesa pic.twitter.com/5yvt7nsejB
— UN Special Rapporteur Richard Bennett (@SR_Afghanistan) March 27, 2023
پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے بھی اس گرفتاری کا ذکر کیا اور ٹوئٹر پر لکھا کہ ’ایک ہفتہ قبل انسانی حقوق کے ایک کارکن نوریل کالیوال کو ہلمند میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ ابھی تک جیل میں ہیں۔ من مانی گرفتاریاں بند کی جائیں۔‘
مطیع اللہ ویسا نے اپنے رضاکار دوستوں کے ساتھ مل کر افغانستان کے کئی صوبوں کے دور دراز علاقوں کا سفر کیا اور مقامی لوگوں کو تعلیم اور دیگر بنیادی حقوق کی ضرورت کے بارے میں آگاہی دی۔
انہوں نے گزشتہ ہفتے افغانستان میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر ٹویٹ کیا تھا کہ سکولوں کی بندش سے جو نقصان ہوتا ہے وہ ناقابل تلافی اور ناقابل تردید ہے۔ ’ہم لڑکیوں کے سکول کھولنے کے لیے گھنٹے، منٹ اور سیکنڈ گن رہے ہیں۔ ہم نے مقامی لوگوں کے ساتھ میٹنگیں کیں اور اگر سکول بند رہے تو ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ تقریباً 30 سال قبل قندھار میں ایک استاد کے گھر پیدا ہوئے۔ جب وہ چھوٹے تھے تو خانہ جنگی میں اپنا سکول جلائے جانے کے بعد سے وہ بچوں کی تعلیم کے حق کے لیے لڑتے رہے۔
انہوں نے اور ان کے دوستوں نے 52 بند سکولوں کو دوبارہ کھولا ہے اور دور دراز علاقوں میں 18 لائبریریاں قائم کی ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے دور دراز دیہاتوں میں بالغوں کی خواندگی کے لیے ایک موٹر سائیکل لائبریری بھی بنائی۔
وہ بچوں خصوصاً لڑکیوں کو بھی اکٹھا کرتے تھے، ان میں کتابیں اور دیگر ضروری پڑھنے کا سامان تقسیم کرتے اور آخر میں ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں کتاب پڑھ کر سناتے۔
2009 سے اب تک ان کی سوسائٹی نے ایک لاکھ 30 ہزار کتابیں اکٹھی کی ہیں اور انہیں افغانستان کے دور دراز علاقوں میں بچوں اور بڑوں میں تقسیم کیا ہے۔ انہوں نے قندھار اور اروزگان صوبوں میں کمپیوٹر سیکھنے کے تین مراکز بھی قائم کیے ہیں۔
احتجاج کا سلسلہ جاری
افغانستان میں طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم اور دیگر پابندیوں کے خلاف احتجاج بھی جاری ہے۔ دو روز قبل دارالحکومت کابل میں کئی خواتین ایک بار پھر تعلیم اور کام کے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔
ان خواتین نے، جن کی تعداد 20 سے کم تھی، ’تعلیم ہمارا حق اور لڑکیوں کو سکول جانے دو‘ جیسے نعرے لگائے تھے۔
اس احتجاج کے شرکا میں سے ایک نے میڈیا کو بھیجے گئے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’ہم طالبان کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے سڑکوں پر آئے ہیں، طالبان کو اقتدار میں آئے ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے اور خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ملازمت کرنے کی اجازت نہیں دی اور تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔‘"