وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ہفتے کو بتایا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور سپریم کورٹ کے دیگر دو ججوں کے خلاف ریفرنس زیر غور ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے چیف جسٹس اور دو دوسرے ججوں کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے سے متعلق مزید کہا: ’اس سے متعلق تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا، لیکن یہ فیصلہ ہو سکتا ہے کیونکہ ان تینوں ججوں نے ایسے فیصلے دیے ہیں جو مسلم لیگ ن کے خلاف گئے ہیں۔
’ان میں سے ایک فیصلہ جو آرٹیکل 63 سے متعلق ہے اسے ہر قانون سمجھنے والے فرد نے آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف قرار دیا ہے۔‘
رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ بظاہر ایسے معلوم ہو رہا ہے کہ یہ جج الیکشن کے التوا کے معاملے کو ’خود نمٹانے‘ پر بضد ہیں۔
’ان ججوں نے فل کورٹ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اکثریتی ججوں کی بات کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اختلاف رائے کی بنیاد عمران خان ہیں اور ان (تحریک انصاف حکومت) کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا وجہ بنا۔
ان کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی کے دور میں سپریم کورٹ میں پائی جانے والی تقسیم اور آج کی صورت حال بالکل ایک جیسی ہیں۔
عمران خان کو مائنس کرنے کے آپشن سے متعلق سوال پر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ جمہوریت میں مائنس کرنے کا آپشن الیکشن ہی ہوتا ہے اور اس وقت تمام سیاسی جماعتیں اس نقطے پر متحد ہیں۔
’جب وہ ہمارے سیاسی وجود کی نفی چاہتا ہے تو ہم کیوں نہیں چاہیں گے؟‘
اکتوبر سے قبل انتخابات ہونے پر انہوں نے کہا کہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد تحلیل اور اس کے 90 روز بعد انتخابات ہونا چاہیے۔
’عمران خان نے اسمبلیاں غلط توڑی ہیں جو آئینی تقاضوں کے مطابق غلط اور غیر جمہوری عمل ہے۔‘
سابق وزیراعظم عمران خان کے بارے میں وزیر داخلہ کے حالیہ بیان ’یا وہ رہیں گے یا ہم‘ پر تنقید کے بعد اس بیان سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی پالیسی بھی یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اپوزیشن جماعتیں ملک کا مسئلہ ہیں جنہیں ختم ہونا چاہیے۔
’انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ہمیں ختم کرنے کی پوری کوشش کی اور ہمارے خلاف جھوٹے کیسز بنائے۔
’عمران خان کا گریٹ پلان اپوزیشن کو ختم کرنا تھا۔ ان کا یہی فلسفہ ہے کہ مخالفین کو نہیں رہنا چاہیے، جب وہ ہمارے سیاسی وجود کی نفی چاہتے ہیں تو ہم کیوں نہیں چاہیں گے؟‘
انہوں نے کہا کہ میڈیا کو مغالطہ ہوا کہ ہم انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور اس غلط فہمی کی بنیاد عمران خان ہی ہیں۔
’جب ہم بات کریں گے تو سیاست کی بات کریں لیکن وہ جب بھی بات کرتے ہیں تو اپنے قتل کی بات کرتے ہیں۔‘
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ان کی ’یا وہ رہیں گے یا ہم‘ والی بات سے ایسا تاثر لیا گیا جیسے ان کی خواہش پوری ہونے جا رہی ہے۔
’جنہوں نے عمران خان کو متعارف کروایا وہ خود پچھتا رہے ہیں، وہ بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی، ان کو مائنس ہونا چاہیے۔‘
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہر بات پر آرٹیکل چھ کہنا ایک رواج بن گیا ہے، ان کی باتوں پر سزا آرٹیکل چھ سے کم نہیں لیکن اس آرٹیکل کے تقاضے کچھ اور ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات اور انہیں پاکستان میں ری سیٹل کرنے پر وزیر داخلہ نے کہا کہ ’انہیں ری سیٹل کرنے کی کوشش ہوئی ہے جو پچھلی حکومت میں کی گئی۔‘
’بطور وزیر اعظم اور سیاسی رہنما عمران خان اس قسم کی رائے کے حامل رہے ہیں اور اسی لیے انہیں طالبان خان کہا جاتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’انہوں نے اس وقت ان کے ساتھ مذاکرات اور انہیں ری سیٹل کرنے کی کوشش کی جو غلط ثابت ہوئی، جس کے نتائج ہم بھگت رہے ہیں۔‘
رانا ثنا اللہ کے مطابق: ’طالبان کے ساتھ باضابطہ طور پر حکومتی سطح پر کوئی مذاکرات نہیں ہوئے۔ عمران خان نے اس سوچ کو پارلیمان کے ساتھ شئیر کیا جس پر وہاں اجلاس بھی ہوا، جہاں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں نے اس کی مخالفت کی۔ تب بھی اس حکومت نے اس معاملے کو بطور تجویز پیش کیا۔‘
ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی میں توسیع کے لیے سمجھوتے سے متعلق سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومتی سطح پر ان کے ساتھ ایسے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔
وزیر داخلہ نے ایک اور سوال کے جواب میں بتایا کہ پارٹی قائد نواز شریف الیکشن سے پہلے پاکستان آئیں گے۔
انہوں نے پی ٹی آئی میڈیا سیل کے اظہر مشوانی سمیت دیگر پارٹی کارکنوں کی مبینہ گمشدگی پر کہا کہ ’وہ بتائیں کہ وہ واپس آ گئے ہیں۔ یہ ہمیں لکھ کر دیں کہ ہمیں کہاں اور کس نے اغوا کیا۔
’بحیثیت وزیر داخلہ کہتا ہوں کہ یہ درخواست دیں ہم ایف آئی آر درج کریں گے اور تحقیقات کریں گے۔ یہ خود بات نہیں کرتے اور صرف سیاسی پروپیگنڈا کے لیے چیزوں کو استمعال کرتے ہیں۔
صحافی ارشد شریف کیس میں پیش رفت پر انہوں نے کہا کہ انہیں قتل کیا گیا، ان کی فیملی کی جانب سے عدم اعتماد ظاہر کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے زیر انتظام جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔