پاکستان کے حکمران اتحاد نے ہفتے کو دو صوبوں میں الیکشن ملتوی ہونے سے متعلق درخواستیں سننے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مذکورہ معاملے پر عدالتی کارروائی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکن بینچ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے الیکشن کے التوا سے متعلق درخواستوں کی سماعت پیر سے دوبارہ شروع کر رہا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت لاہور میں حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے ویڈیو لنک پر منعقدہ اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو زرداری، پاکستان مسلم لیگ ن کی مریم نواز شریف سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین اور رہنماﺅں نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا: ’اجلاس نے تقاضا کیا کہ ازخود نوٹس نمبر 1/2023 کے چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔
’افسوس ناک امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اقلیتی فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
’یہ طرز عمل ملک میں ایک سنگین، آئینی و سیاسی بحران ہی نہیں بلکہ آئین اور مروجہ قانونی طریقہ کار سے انحراف کی واضح مثال ہے، جو ریاست کے اختیارات کی تقسیم کے بنیادی تصور کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘
بیان کے مطابق اجلاس میں سوال اٹھایا گیا کہ سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے تمام مقدمات کی سماعت روکنے کا حکم دیا ہے اور متضاد عدالتی فیصلوں سے ناقابل عمل اور پیچیدہ صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔
’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا بھی سب پر لازم ہے۔‘
اجلاس نے مطالبہ کیا کہ پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے آرٹیکل 209کے تحت دائر ریفرنسز پر کارروائی کی جائے۔
اجلاس نے یہ بھی واضح کیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن پہلے ہی اس مقدمے میں رضا کارانہ طور پر بینچ سے الگ ہو چکے تھے لہذا وہ موجودہ بینچ کا حصہ نہیں ہو سکتے۔
’اس بابت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے آرڈرز واضح ہیں اور یہ سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے۔‘
اجلاس نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے بینچز میں اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو ادارے کے سربراہ کے طور پر سنیں اور فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں تاکہ ’ون مین شو‘ کا تاثر ختم ہو۔
اجلاس نے آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر تین رکنی فیصلے کو سیاسی عدم استحکام کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے ذریعے آئین کو ری رائٹ کیا گیا۔
اجلاس کے مطابق ملک کی اعلی ترین عدالت کی سوچ میں تقسیم واضح طور پر نظر آرہی ہے، اس لیے عدالت عظمی کو متازعہ سیاسی فیصلے جاری کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
اجلاس نے مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور بعض دیگر ججوں سے متعلق یہ تاثر بھی ختم کیا جائے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے معاملے میں خصوصی امتیازی رویہ اپنا رہے ہیں۔
اجلاس میں کہا گیا: ’سیاست دانوں کو مل کر بیٹھ کر فیصلے کرنے کی ہدایت کرنے والے خود تقسیم ہیں، انہیں اپنے اندر بھی اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا چاہیے۔‘
وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اجلاس کو دستور پاکستان کے آرٹیکل 184(3) کے تحت پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی سے متعلق آگاہ کیا اور سپریم کورٹ میں ججوں کے درمیان اختلافی فیصلوں اور بینچوں کے اجرا سے پیدا ہونے والے صورت حال پر بریفنگ دی۔
بیان کے مطابق اجلاس نے پارلیمنٹ کی حالیہ قانون سازی کی بھرپور تائید کی اور کہا کہ اس سے قانون سازی سے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کر دی گئی ہیں۔
’عوام الناس کے ساتھ یک طرفہ انصاف کی روش کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں داد رسی کا حق دیا گیا ہے جو فطری انصاف اور آئین کی بنیادی منشا ہے۔
’پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 184 (3) سے متعلق اپنی رائے واضح کر دی ہے ۔ پارلیمنٹ ایک بالادست ادارہ ہے جس کی رائے کا سب کو احترام کرنا چاہیے۔‘
اجلاس نے امید ظاہر کی کہ صدر مملکت اس قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
اجلاس نے مطالبہ کیا کہ ملک میں ایک ہی دِن انتخاب ہونے چاہییں، جو غیر جانب دارانہ، شفاف اور آزادانہ الیکشنز کے انعقاد کا بنیادی دستوری تقاضا ہے۔
’اس سے انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کر دے گا۔ یہ صورت حال ملک کے معاشی مفادات پر خود کش حملے کے مترادف ہو گی۔‘
اجلاس نے واضح کیا کہ لشکر اور جتہوں سے ریاستی اداروں پر حملہ آور ایک جماعت کے دباﺅ پر پورے ملک میں مستقل سیاسی و آئینی بحران پیدا کرنے کی سازش کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’بدقسمتی سے ایک انتظامی معاملے کو سیاسی و آئینی بحران بنا دیا گیا ہے۔ معاشی، سکیورٹی، آئینی، قانونی اور سیاسی امور کو نظر انداز کرنا ریاستی مفادات سے لاتعلقی کے مترادف ہے۔
’خاص مقصد اور جماعت کو ریلیف دینے کی عجلت سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے۔ یہ آئین وقانون اور الیکشن کمشن کے اختیار کے بھی منافی ہے۔
’آئین کے آرٹیکل 218 (3 ) سمیت دیگر دستوری شقوں کے تحت انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کو آئین کے تحت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔
’اور یہی فیصلہ سپریم کورٹ کے چار معزز جج صاحبان ازخود نوٹس نمبر 1/2023 میں دے چکے ہیں۔‘
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اجلاس کو ملک کی معاشی صورت حال پر بریفنگ بھی دی۔
اجلاس میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، امین الحق ، سردار اختر مینگل، ہاشم نوتزئی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، محمد طاہر بزنجو، محمود خان اچکزئی، شفیق ترین، اے این پی کے امیر حیدر خان ہوتی، میاں افتخار حسین، باپ کے ڈاکٹر خالد مگسی، چوہدری سالک حسین، طاہر بشیر چیمہ، نوابزادہ شاہزین بگٹی، آفتاب احمد شیرپاؤ، خواجہ محمد آصف، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، رانا تنویر حسین، مریم اورنگزیب، ملک محمد احمد خان، عطا اللہ تارڑ، علامہ ساجد میر، اسلم بھوتانی، مولانا عبدالغفور حیدری، شاہ اویس نورانی، کامران مرتضی، محسن داوڑ، فاروق ایچ نائیک، مرتضی وہاب اور شیراز راجپر شریک ہوئے۔