جامعہ پشاور میں اساتذہ کی جانب سے کلاسز کے بائیکاٹ کو ایک ماہ مکمل ہونے پر وائس چانسلر نے ریٹائرڈ اساتذہ، سابق طلبہ اور پی ایچ ڈی سکالرز کے ذریعے آج سے 16 شعبہ جات میں کلاسز شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن ہڑتال کرنے والے اساتذہ کی انجمن نے اس عمل کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ہڑتال نہ کرنے والے اساتذہ کے ساتھ بدھ کو ایک اجلاس میں دور دراز علاقوں کے طلبہ کے لیے صرف ماہ رمضان میں آن لائن کلاسز شروع کرنے کا بھی فیصلہ ہوا ہے۔
چار اپریل کو جامعہ پشاور کے وائس چانسلر (وی سی) ڈاکٹر محمد ادریس نے کہا تھا کہ اساتذہ اور دیگر ملازمین کا احتجاج مزید جاری رہنے کی صورت میں ریٹائرڈ اساتذہ، پشاور یونیورسٹی کے سابق طلبہ اور پی ایچ ڈی سکالرز سے رضاکارانہ تدریسی خدمات حاصل کی جائیں گی۔
اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پانچ اپریل کو پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ کی انجمن (پیوٹا) کے ترجمان ڈاکٹر محمد عزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک ویڈیو بیان میں بتایا کہ ’ایسا ہونا ناممکن ہے اور وہ اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ اس وی سی کو ہٹائیں۔ ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ جب مستقل ملازمین باہر احتجاج پر ہیں، آپ کیسے کسی اور کو ان کی جگہ لا سکتے ہیں۔ ایسا ناممکن ہے اور میں اس اقدام کو چیلنج کرتا ہوں۔‘
ترجمان پیوٹا نے کہا کہ دراصل وی سی کے اس قسم کے بیانات کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا، غلطی فہمی پیدا کرنا اور ملازمین پر دباؤ بڑھانا ہے۔
’ہم اساتذہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر موجودہ وائس چانسلر اتنے فعال ہیں تو پھر کیوں یونیورسٹی اس حال پر پہنچی۔ کیوں 20، 25 ہڑتالیں ان کے خلاف صرف طلبہ کی جانب سے ہوئیں۔‘
انہوں نے کلاسز بائیکاٹ کے حوالے سے کہا کہ اساتذہ نہیں چاہتے کہ طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہو، تاہم انہوں نے کہا کہ جب کلاسز بحال ہوجائیں گی تو وہ اضافی کلاس لے کر اس کمی کو پورا کر دیں گے۔
ڈاکٹر عزیر نے کہا کہ ہڑتال کرنے والے اساتذہ کسی بھی قیمت پر وائس چانسلر کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ انہیں وی سی کی کسی بات پر اعتبار نہیں ہے۔
’اس سے پہلے بھی کئی معاملات پر وی سی کے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں لیکن کبھی بھی انہوں نے اپنے دعوے اور وعدے پورے نہیں کیے۔ پشاور یونیورسٹی کی تاریخ میں وہ پہلے وی سی ہوں گے جن کو یونیورسٹی ملازمین کے احتجاج کے نتیجے میں ہٹایا جائے گا۔‘
وائس چانسلر کا موقف
اساتذہ کے ردعمل کا جواب دیتے ہوئے وائس چانسلر نے کہا کہ یونیورسٹی میں رضاکارانہ تدریسی خدمات دینے والوں کو ایک باقاعدہ طریقہ کار سے لایا جا رہا ہے اور معیاری تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
’جو ہڑتال کرنے والے اساتذہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے، ہم انہیں ایسا کرکے دکھا دیں گے کیوں کہ یہ مزید قابل برداشت نہیں ہے کہ طلبہ کا وقت ضائع ہو باوجود اس کے کہ ہم ان سے اتنی بڑی فیس لیتے ہیں اور زیادہ تر کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔‘
وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ ہڑتالی اساتذہ کی یہ بات بھی درست نہیں کہ یونیورسٹی کے حالات انہوں نے خراب کیے ہیں۔
’مجھے حیرت ہو رہی ہے کیوں کہ جب میں 2020 میں آیا تو اس وقت بھی یونیورسٹی میں احتجاج اور بائیکاٹ چل رہا تھا۔ یونیورسٹی کے پاس اس وقت تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں تھے۔ یونیورسٹی پر 769 ملین کا قرضہ تھا۔ میں نے جو اقدامات اٹھائے اس کی بدولت یونیورسٹی اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی۔ نتیجتاً اچھی پرفارمنس پر ہائر ایجوکیشن کمیشن اور صوبائی حکومت نے ہمیں گرانٹس دیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وائس چانسلر ڈاکٹر ادریس نے کہا کہ وہ ایک باقاعدہ طریقہ کار سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے ہیں، لہذا چند اساتذہ احتجاج کرکے انہیں نہیں ہٹا سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہڑتالی اساتذہ کے الزامات اور مطالبات کے نتیجے میں انہوں نے 169 صفحات پر مشتمل جواب لکھا ہے، جس کی گورنر نے توثیق کی ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ادریس نے گذشتہ روز ایک ہنگامی اجلاس طلب کرکے 16 شعبہ جات کے چیئر پرسنز سے ملاقات کی اور آج (چھ اپریل) سے کلاسز شروع کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔
چیئر پرسنز نے دوران ہڑتال اپنے متعلقہ ڈیپارٹمنٹس کی صورت حال بیان کی اور اس بات پر متفق ہوئے کہ اگر ہڑتال مزید طوالت اختیار کرگئی تو طلبہ کا ایک سیمسٹر ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔
احتجاج کی وجہ کیا ہے؟
پانچ مارچ کو پشاور یونیورسٹی میں سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں سکیورٹی ایڈوائزر ثقلین بنگش کے قتل کا واقعہ پیش آیا تھا، جس کے اگلے دن پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن نے چھ مارچ سے کلاسز کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
احتجاج کرنے والے ملازمین پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد ادریس کو عہدے سے ہٹانے مطالبہ کر رہے ہیں۔
اساتذہ کی انجمن کا موقف ہے کہ پروفیسر کے قتل کے بعد انہوں نے پشاور یونیورسٹی میں ملازمت پر مامور گارڈز کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے وائس چانسلر سے پرائیویٹ کمپنی ’سگما‘ کے گارڈز ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم ان کی بات کو نظرانداز کر دیا گیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اساتذہ سمیت وائس چانسلر سے اس معاملے پر ان کا موقف لیا تھا۔ وائس چانسلر کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ ان کی ملاقات ہو گئی تھی اور متفقہ طور پر ایک اعلامیہ جاری کیا گیا کہ نجی کمپنی کے سکیورٹی گارڈز ہٹا کر پشاور یونیورسٹی خود نئے گارڈ رکھنے کی مجاز ہوگی۔
21 دن بعد جب انڈپینڈنٹ اردو نے اساتذہ کی انجمن کے صدر سے بات کی کہ احتجاج کیوں طول پکڑ گیا تو انہوں نے بتایا تھا کہ ’کوئی میٹنگ ہوئی نہ مذاکرات، تین ہفتوں کے دوران وائس چانسلر نے ہمیں نظرانداز کیا، اب میٹنگ کے لیے بلایا ہے تو ہم نے انکار کر دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا پہلا مطالبہ ہے وی سی کو ہٹایا جائے۔ دوسرا مطالبہ ہے کہ نجی کمپنی سگما سے معاہدہ ختم کرکے اس کی انکوائری کی جائے کہ یہ کون چلا رہا ہے۔ ہمیں شک ہے کہ اس کمپنی کے ساتھ اندر کے لوگ ملے ہوئے ہیں۔ تیسرا مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی کو اسلحے سے پاک کیا جائے۔‘