وائٹ ہاؤس نے بالآخر طویل انتظار کے بعد جمعرات کو افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پر جائزہ رپورٹ جاری کر دی جس میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انٹیلی جنس ناکامی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ خفیہ جائزہ رپورٹ کانگریس کو بھیجی گئی تھی جہاں ایوان نمائندگان میں ریپبلکن اکثریت اگست 2021 میں انخلا کے حوالے سے صدر جو بائیڈن کی ناکامیوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔
بارہ صفحات پر مبنی ڈی کلاسفائیڈ سمری پیش کرتے ہوئے قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے تسلیم کیا کہ انخلا میں اہم غلطیاں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے طالبان نے چند ہفتوں کے اندر افغانستان پر قبضہ کر لیا اور باقی ماندہ امریکی فوجیوں اور ان کے اتحادیوں کو مایوس کن انداز میں ملک چھوڑنا پڑا۔
جان کربی نے نامہ نگاروں کو بتایا: ’کسی بھی جنگ کو ختم کرنا آسان کوشش نہیں ہوتی، یقیناً 20 سال بعد بھی نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے قابل نہیں تھے۔‘
دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے بائیڈن کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کو ایسے حالات پیدا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جس کی وجہ سے امریکہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ کے بیچ میں ایک بار پھر اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ حکومت لوگوں کا انخلاء پہلے ہی شروع کر سکتی تھی۔
وائٹ ہاؤس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ امریکی انٹیلی جنس سروسز طالبان کی طاقت اور مغربی ممالک کی برسوں کی کاوشوں سے کھڑی کی گئی سرکاری افغان افواج کی کمزوری کو سمجھنے میں ناکام رہی۔ کربی نے کہا کہ ’واضح طور پر ہم نے انٹیلی جنس کے حوالے سے ٹھیک کام نہیں کیا۔‘
رپورٹ کی سمری میں کہا گیا ہے کہ ’بالآخر کسی بھی چیز سے باہر نکلنے کا راستہ تبدیل نہیں ہوتا اور صدر بائیڈن نے امریکیوں کی ایک اور نسل کو ایسی جنگ میں جھونکنے سے انکار کیا جو امریکہ کے لیے بہت پہلے ختم ہو جانی چاہیے تھی۔‘
30 اگست 2021 کو مکمل ہونے والے انخلا نے امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کو حیران کر دیا تھا کیوں کہ طالبان نے چند ہفتوں کے اندر مغربی تربیت یافتہ افغان فورسز کو تاش کے پتوں کی طرح گرا دیا۔
26 اگست کو کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ایک خودکش بم حملے میں 13 امریکی فوجی اور 170 افغان شہری ہلاک ہوئے، جہاں ایک بے مثال آپریشن کے دوران ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد کو نکالا گیا۔
اس سے پہلے کہ امریکی فوجی پورے ہوائی اڈے کو محفوظ بنانے میں کامیاب ہوتے دنیا نے خوف زدہ افغان شہریوں کے ہوائی جہازوں پر ٹوٹ پڑنے کے مناظر دیکھے جہاں وہ اپنی زندگیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوتے رن وے پر دوڑتے طیاروں سے لپکنے کی کوشش کر رہے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سمری میں وائٹ ہاؤس نے ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں ہونے والے معاہدے کو بھی اس انخلا کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے نے آنے والی بائیڈن انتظامیہ کو ایک ناممکن پوزیشن میں ڈال دیا تھا۔
سمری میں مزید کہا گیا کہ ’اقتدار سے جانے والی ٹرمپ انتظامیہ نے آنے والی بائیڈن انتظامیہ کو انخلا کی تاریخ کے ساتھ چھوڑ دیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد کا کوئی منصوبہ نہیں دیا۔‘
رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے آخری 11 ماہ کے دوران افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی میں مسلسل کمی کی تھی جو بائیڈن کے جنوری 2021 میں اقتدار سنبھالنے تک صرف 2500 اہلکاروں تک پہنچ گئی تھی۔
’نتیجتاً طالبان نے 2001 کے بعد اپنی مضبوط ترین عسکری پوزیشن حاصل کر لی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ نے جمعرات کو اپنے ذاتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ پر جاری ایک پوسٹ میں موجودہ وائٹ ہاؤس قیادت کو ’بے وقوف‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان میں انتہائی نااہلی سے ہتھیار ڈالنے کے ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے لکھا: ’اس کے بائیڈن ذمہ دار ہے، کوئی اور نہیں!‘
جان کربی نے انٹیلی جنس کی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے مزید کہا کہ امریکی حکومت یہ اندازہ لگانے میں کامیاب نہیں ہوئی کہ طالبان ملک بھر میں کتنی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ افغان سرکاری فوج کے دستے کتنی تیزی سے جنگ سے نکل جائیں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہم نے فوج میں افسروں کی صفوں میں ہونے والی بدعنوانی کا سراغ لگایا ہو۔‘
آخر میں وائٹ ہاؤس کی رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ طالبان کی حیرت انگیز پیش رفت اور سرکاری افواج کی کمزوری سمیت جنگ کی طویل المدت ناکامی کا مطلب یہ تھا کہ اس کا خاتمہ کبھی بھی اچھا نہیں ہونا تھا۔
رپورٹ کے اختتام میں لکھا ہے کہ ’20 سال سے زیادہ عرصے کے بعد، دو کھرب ڈالر سے زیادہ خرچ کرنے اور تین لاکھ نفری پر مشتمل افغان فوج کھڑی کرنے کے بعد بھی طالبان نے جس رفتار اور آسانی کے ساتھ افغانستان کا کنٹرول سنبھالا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا کوئی دوسرا انجام ہو ہی نہیں سکتا تھا سوائے ایک مستقل اور نمایاں طور پر توسیع شدہ امریکی فوج کی موجودگی کے اور اس سے بھی محض رفتار کو کم کیا جا سکتا تھا۔‘