’ہر کسی کو پتہ ہے کہ افغانستان کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں اور خواتین پر گھر سے باہر نکلنے اور کام کرنے کی پابندی ہے لیکن میں نیل آرٹ نامی ادارے میں نورستانی فن پارے بنا کر دنیا میں فروخت کرتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ یہ آرٹ پوری دنیا میں متعارف کر سکوں۔‘
یہ کہنا تھا افغانستان کے صوبہ غزنی سے تعلق رکھنے والی زہرہ درویش کا جو کابل میں رہتی ہیں اور ’نیل آرٹ‘ نامی کمپنی میں کام کرتی ہیں۔
زہرہ نے افغانستان کی ایک نجی یونیورسٹی سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی ہے۔
زہرہ درویش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے یہ کمپنی2021 میں بنائی اور ہم لکڑی پہ نقش و نگار بنا کے انہیں آن لائن فروخت کرتے ہیں۔
’افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد جب خواتین پر پابندیاں لگ گئیں تو ہم نے پراڈکٹس آن لائن بیچنا شروع کر دیں اور اس میں ’اصیل‘ نامی غیر سرکاری ادارے نے ہماری مدد کی لیکن جتنا ہم کماتے ہیں، اس سے گھر کے خرچے پورے نہیں ہوتے۔‘
زہرہ نے بتایا کہ ’ہر کسی کو پتہ ہے کہ آج کل معاشی حالات بہت خراب ہیں لیکن ہم آن لائن اشیا بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کوئی بھی شخص کوئی چیز خریدنا چاہے تو وہ اصیل نامی ویب سائٹ پر جا کر وہاں سے پسند کی چیز منتخب کر کے دنیا بھر میں کہیں بھی خرید سکتا ہے۔‘
زہرہ کے مطابق ’ہم پہلے کاغذ پر نقش و نگار بنا کر اس کو لکڑی پر کاپی کرتے ہیں اور اس کے بعد فائنل پراڈکٹ خریدار کو بیچتے ہیں۔‘
افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق متعدد شعبہ جات میں کام کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ ہائی سکول طالبات کی تعلیم پر بھی تقریباً ایک سال قبل پابندی لگا دی گئی تھی۔
تاہم طالبان حکومت نے کئی بار اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ ’ابھی خواتین کی تعلیم کے لیے انتظامات مکمل نہیں ہیں اور جب انتظامات مکمل ہو جائیں گے تو خواتین کی تعلیم پر پابندی ختم کر دی جائے گی۔‘
اصیل نامی غیر سرکاری تنظیم اسی مسئلے کے حل کے لیے خواتین کو دہلیز پر روزگار فراہم کرتی ہے۔ تنظیم کی عہدیدار مدینہ متین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہماری تنظیم ٹیکنالوجی کی مدد سے خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم نے مختلف خواتین جو دستکاری کا کام کرتی ہیں انہیں روزگار شروع کرنے میں مدد دی ہے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکیں اور گھر کے اخراجات برداشت کر سکیں۔‘
افغانستان تقریباً گذشتہ 40 سال سے جنگی صورت حال کا شکار رہا ہے اور یہاں ہزاروں خواتین اس جنگ سے متاثر ہوئی ہیں۔ مدینہ کے مطابق ان کی تنظیم زیادہ تر انہی خواتین کی مدد کرتی ہے جو جنگ سے متاثر ہوئی ہیں۔
ان کے مطابق ’ہمارے پاس زیادہ تر رجسٹرڈ خواتین ایسی ہیں جو جنگ میں اپنے شوہر، بھائی یا والد کو کھو چکی ہیں۔ جبکہ افغانستان کی سابق حکومت کے لیے کام کرنے والی خواتین بھی ان میں شامل ہیں۔‘
مدینہ کے مطابق ان کی تنظیم اب تک تقریباً چھ سو مرد و خواتین کی مدد کر چکی ہیں۔
نوٹ: اس رپورٹ کو مرتب کرنے میں اصیل نامی غیر سرکاری تنظیم نے معاونت فراہم کی ہے۔ یہ رپورٹ افغان خواتین پر ویڈیو رپورٹس کی سیریز ’بااختیار افغان خواتین‘ کا حصہ ہے۔