شمالی کوریا نے امریکہ اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقوں کے خلاف بطور احتجاج سنیچر کی صبح میزائل کے نئے تجربے کیے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیانگ یانگ کی جانب سے تازہ ترین تجربے اس کی حالیہ میزائل لانچنگ سیریز کا حصہ ہیں اور یہ امریکی صدر کے اس بیان کے چند گھنٹوں بعد کیے گئے جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان مشقوں پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ بظاہر دو کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل شمالی کوریا کے شمال مشرقی شہر ہیم ہنگ کے ساحل سے داغے گئے جو 400 کلو میٹر بلندی پر پرواز کرتے ہوئے جزیرہ نما کوریا اور جاپان کے درمیان سمندر میں جا گرے۔
یہ دو ہفتوں کے دوران ایسا پانچواں میزائل تجربہ ہے جسے شمالی کوریا کے مطلق العنان رہنما کِم جونگ اُن نے امریکہ اور جنوبی کوریا کے درمیان چند روز قبل شروع ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں کے خلاف ’سخت انتباہ‘ قرار دیا ہے۔
شمالی کوریا کی جانب سے ہفتے کو میزائل تجربات صدر ٹرمپ کے بیان کے فوری بعد کیے گئے جس میں انہوں نے کِم جونگ اُن کی مشترکہ فوجی مشقوں کی مخالفت کو جائز قرار دیا تھا اگرچہ یہ مخالفت عسکری نوعیت کی بجائے مالیاتی وجوہات کی بِنا پر کی گئی تھی۔
صدر ٹرمپ کئی بار کِم جونگ اُن سے اپنے ذاتی مراسم کے بارے میں بات کر چکے ہیں تاہم ان کی انتظامیہ تاحال پیانگ یانگ کے ساتھ تخفیف جوہری اسلحہ پر مذاکرات بحال کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا: ’مجھے کِم جونگ اُن کی جانب سے کل نہایت شاندار مراسلہ موصول ہوا ہے۔ یہ بہت امید افزا خط تھا۔‘
ٹرمپ نے مزید کہا کہ ’وہ [کِم] فوجی مشقوں سے ناخوش تھے۔ یہ مجھے بھی کبھی پسند نہیں رہیں۔ میں کبھی بھی ان کا حامی نہیں رہا۔ اور کیا آپ جانتے ہیں کہ اس ناپسندیدگی کی کیا وجہ ہے؟ کیونکہ میں ان [مشقوں] کے لیے رقم خرچ کرنے کے خلاف ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اور چند گھنٹوں بعد وائٹ ہاؤس کے پاس ان میزائل تجربات کے بارے میں کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔
ایک سینیئر امریکی عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم اس حوالے سے اپنے اتحادیوں جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ قریبی رابطوں میں ہیں اور مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
دوسری جانب جنوبی کورین فوج کے جائنٹ چیفس آف سٹاف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مشترکہ فوجی مشقوں کے تناظر میں مزید میزائل تجربات کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔
’ہماری فوج اپنی پوری تیاری رکھتے ہوئے مزید میزائل تجربوں کا قریب سے جائزہ لے رہی ہے۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ برس ہونے والے صدراتی انتخابات سے قبل شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے پیانگ یانگ سے معاہدے کے لیے کوشش کر رہے ہیں تاکہ اس کو انتخابی مہم کے دوران اپنی عظیم کامیابی کے طور پر پیش کر سکیں۔
اس کے لیے انہوں نے گذشتہ برس سنگاپور میں کِم جونگ اُن سے پہلی بار تاریخی ملاقات کر کے دونوں ممالک کے تعلقات پر دہائیوں سے جمی برف پگھلائی تھی۔
تب سے ہونے والی کئی ملاقاتوں کے بعد صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ کِم جونگ اُن طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کو راضی ہو گئے ہیں۔
تاہم پیانگ یانگ کا اصرار رہا ہے کہ تخفیف اسلحہ پر مذاکرات میں پیش رفت کے لیے واشنگٹن کو اس پر عائد معاشی پابندیوں کو ختم کرنا ہو گا۔
جمعے کو صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میزائل تجربات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔
’میں ایک بار پھر کہوں گا کہ انہوں [شمالی کوریا] نے کوئی ایٹمی تجربہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی کوئی بیلسٹک یا طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کا تجربہ کیا ہے۔‘
واشنگٹن اور سیئول نے رواں سال مارچ میں پیانگ یانگ کو تخفیف جوہری اسلحہ پر راضی کرنے کے لیے اپنی مشترکہ فوجی مشقوں کو کم سطح تک لانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
ادھر صدر ٹرمپ کے برعکس ان کی انتظامیہ نے شمالی کوریا کی جانب سے حالیہ میزائل تجربات کی مخالفت میں آواز بلند کی ہے۔
پیانگ یانگ کی جانب سے رواں ہفتے میزائل تجربات کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ ان کا ملک شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے تاہم واشنگٹن تخفیف جوہری اسلحہ کے مکمل اور حتمی معاہدے کے ہدف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
ایک سینیئر امریکی عہدیدار نے گذشتہ ہفتے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا تھا کہ شمالی کوریا کی جانب سے میزائل تجربات امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا تھا: ’میزائل کے تجربات یا کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی سفارتکاری کے مقصد میں آگے بڑھنے میں مدد گار ثابت نہیں ہو سکتی۔‘