غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے 10 فلسطینیوں کو جمعرات کو رہا کر کے واپس بھیج دیا گیا ہے، تاہم رہائی پانے والے قیدیوں نے بتایا کہ قید کے دوران انہیں مسلسل بدسلوکی اور اذیت کا سامنا رہا۔
اسرائیل نے سات اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ میں فوجی کارروائی شروع کی جس کے دوران ہزاروں فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا۔ اس دوران اسرائیل نے وقتاً فوقتاً کچھ قیدیوں کو رہا کر دیا تاہم یہ رہائی مارچ کے وسط میں اسرائیلی حملے دوبارہ شروع ہونے کے بعد پہلی بار عمل میں آئی۔
رہا کیے گئے تمام 10 افراد نے سرمئی رنگ کی شرٹس اور پتلونیں پہن رکھی تھیں۔ انہیں ایک بس کے ذریعے غزہ کے مرکزی علاقے دیر البلح کے ایک ہسپتال پہنچایا جہاں ان کے خاندان کے افراد نے ان کا استقبال کیا۔
ان تمام افراد کو شمالی غزہ سے اس وقت حراست میں لیا گیا جب جنوری میں ہونے والی فائر بندی سے قبل اسرائیل نے وہاں آخری بڑی فوجی کارروائی کی۔
رہائی پانے والوں کا کہنا تھا کہ انہیں کم از کم کچھ عرصہ سدے تیمان نامی ایک فوجی قید خانے میں رکھا گیا جو غزہ کے قیدیوں پر مبینہ تشدد کے باعث بدنام ہو ہے۔
رہا ہونے والوں میں سے ایک، فائز ایوب، کمزور دکھائی دے رہے تھے اور بمشکل چل پا رہے تھے۔ ایک اور شخص انہیں سہارا دے رکھا تھا۔
اس موقعے پر گفتگو میں ان کی بیٹی مرح ایوب نے کہا کہ ’ابو، قسم سے، ہر لمحہ ہم نے آپ کی رہائی کا انتظار کیا۔ جب بھی کوئی قیدی رہا ہوتا، ہم اس کے پاس جاتے تاکہ آپ کے بارے میں پوچھ سکیں۔
انہوں نے بیٹی سے بس اتنا کہا: ’اذیت ، اذیت۔‘
فائز ایوب نے بتایا کہ انہیں چھ نومبر کو اسرائیلی فوج نے حراست میں لیا ’156 دن اذیت میں گزرے۔ ہمیں مسلسل تکلیف دی گئی، تشدد کیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کو روزانہ بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا اور انہیں بہت کم سونے دیا جاتا۔
ان کی بیٹی نے بتایا کہ ان کے والد کو اسرائیلی فوج نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ شمالی غزہ کے کمال عدوان ہسپتال سے نکلے ہی تھے۔ اسرائیلی فضائی حملے میں ان کے پیٹ کے نچلے حصے اور ریڑھ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔
مرح ایوب نے اپنے والد کی حالت دیکھ کر کہا کہ ’کیا میرے ابو ایسے تھے؟ اور کیا اب ان کی یہ حالت ہو گئی؟ وہ پہلے ایسے نہیں تھے۔‘
ایک اور شخص، ہانی ابو شریف، نے بتایا کہ انہیں بار بار مارا پیٹا گیا۔ کپڑے اتروائے جاتے تھے اور ننگے پاؤں پتھروں پر کھڑا کر دیا جاتا جس کی وجہ سے ان کے پاؤں سے خون بہنے لگتا۔ ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کو ایک یا دو ماہ میں صرف ایک بار نہانے کی اجازت دی جاتی تھی۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے فوری طور پر اس ضمن میں کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ فوج اور جیل حکام کا کہنا ہے کہ وہ قیدیوں کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کرتے ہیں اور کسی خلاف ورزی کی صورت میں تحقیقات کی جاتی ہے۔
تاہم فوجی قید خانوں اور عام جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی، مسلسل مارپیٹ، طبی سہولیات اور خوراک کی شدید کمی کی متعدد اطلات سامنے آ چکی ہیں۔
سدے تیمان قید خانے میں ایک فلسطینی قیدی کو چاقو کے زور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے الزام میں پانچ فوجیوں پر فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔
مارچ میں 17 سالہ ایک فلسطینی نوجوان مگیدو جیل میں جان سے گئے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کی موت بھوک سے ہونے کا امکان ہے۔ مگیدو جیل کا انتظام سول انتظامیہ کے پاس ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں کے آغاز سے اب تک اسرائیلی جیلوں میں کم از کم 61 فلسطینی قیدی جان سے جا چکے ہیں۔
اس وقت بھی ہزاروں فلسطینی بغیر کسی الزام یا مقدمے کے اسرائیلی حراست میں ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ان افراد کو گرفتار کرتا ہے جن پر حماس سے تعلق کا شبہ ہو اور جب یہ ثابت نہ ہو جائے کہ ان کا عسکریت پسندوں سے تعلق نہیں، تو انہیں رہا کر دیا جاتا ہے۔
دو ماہ کی فائر بندی کے دوران اسرائیل نے درجنوں فلسطینی قیدیوں کو اس شرط پر رہا کیا کہ غزہ میں موجود اسرائیلی قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے۔