پشاور کے مشرقی علاقے سرکی گیٹ میں ایک پرانے مکان کے حوالے سے گذشتہ دن سے ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جس میں کہا جا رہا ہے کہ ’یہ مکان کھدائی کے دوران دریافت ہوا ہے۔‘
ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک بوسیدہ مکان ہے جس کے ستون گر چکے ہیں اور ملبہ پڑا ہوا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس جگہ کا دورہ کیا ہے تاکہ جان سکیں کہ اصل کہانی کیا تھی اور کیا گھر واقعی کھدائی کے دوران دریافت ہوا ہے؟
تقریباً دس مرلہ رقبے پر بنایا گیا یہ مکان محلہ ’بڑ‘ اندرون شہر میں واقع ہے جو زیر زمین ہے اور دو منزلہ بنایا گیا ہے۔ جبکہ اس کے اوپر یعنی گراؤنڈ فلور پر بھی مکان تعمیر کیا گیا تھا۔
مکان میں واضح طور پر پہلے اور دوسرے تہہ خانے کی جانب سیڑھیاں جاتی دکھائی دیتی ہیں۔
علاقہ مکینوں اور محکمہ آثار قدیمہ خیبر پختونخوا کے مطابق یہ مکان کھدائی کے دوران دریافت نہیں ہوا بلکہ باقاعدہ طور پر ایک مکان تھا جس کا تہہ خانہ موجود تھا اور جسے مسمار کر دیا گیا ہے۔
مکان کے اندر بیت الخلا اور باورچی خانے کی تعمیر میں چھوٹی ’وزیری خشت‘ (اینٹیں) استعمال کی گئی ہے۔
اسی مکان کے قریب رہنے والے وکیل عبدالمتین کے مطابق وزیری خشت کا استعمال پشاور شہر کے کئی قدیم مکانات میں کیا گیا ہے اور اس کا استعمال اس خطے میں انگریز دور سے بھی پہلے ہوا کرتا تھا تو اس سے لگتا ہے کہ یہ مکان دو سو سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔
75 سالہ عبدالمتين نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا کہ ’کچھ عرصہ پہلے تک اس مکان میں اسی شہر کے لوگ آباد تھے لیکن پھر یہ مکان چھوڑ کر چلے گئے اور ان کے بعد نہیں معلوم کس نے یہ مکان خریدا اور گرایا۔‘
محکمہ آثار قدیمہ گور گٹھری پشاور کی جانب سے مقامی تھانے کو لکھی گئی درخواست برائے ایف آئی آر میں مالک مکان کے طور پر ’وسیم‘ نام لکھا گیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے درخواست میں وسیم نامی مالک مکان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’ہمارا اس مکان کے ساتھ اب کوئی تعلق ہی نہیں ہے کیونکہ ہم اسے ڈیڑھ سال پہلے بیچ چکے ہیں۔‘
’اس کے بعد بھی یہ گھر دو تین بار بک چکا ہے۔ اب ہمارا اس کے ساتھ کیا لینا دینا ہے کہ ہمارا نام مقدمے میں ڈال دیا گیا ہے؟‘
وسیم کے مطابق وہ پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور یہ مکان اب ان کے نام پر نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حوالے سے محکمہ اثار قدیمہ کے اہلکار بخت محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’محکمہ اثار قدیمہ نے اس مکان کو انگریز دور کا قرار دیا ہے اور اس کی مسماری صوبائی انٹیکویٹی ایکٹ سیکشن 44، 2016 کی خلاف ورزی ہے۔
مسمار کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے پولیس کو خط (درخواست برائے ایف آئی آر) لکھا گیا ہے۔‘
اس قانون کے تحت دو سال قید یا پانچ لاکھ جرمانہ، یا دونوں سزائیں اکٹھی دی جا سکتی ہیں۔
بخت محمود سے جب پوچھا گیا کہ یہ مکان کتنے سال پرانا ہے تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن محکمہ اس پر کام کر رہا ہے اور اس حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی جائے گی۔‘
مسمار شدہ مکان کو دیکھنے کے لیے اہل علاقہ کی بڑی تعداد جمع تھی اور خستہ حالی سے نظر آتا ہے کہ اس کا بچا ہوا حصہ بھی گرنے کے قریب ہے۔ اس مکان کے اردگرد اونچے اونچی کیی منزلہ دیگر مکانات بھی بن چکے ہیں۔
اہمیت
اس علاقے کی اہم شخصیات میں پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس وقار احمد سیٹھ بھی شامل ہیں۔ ویسے تو سیٹھ وقار کے خاندان کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک تاجر خاندان سے تھا لیکن ان کے والد سمیت کئی دیگر افراد وکالت کے پیشے سے بھی تعلق رکھتے تھے اسی وجہ سے سیٹھ وقار کی پیدائش بھی پشاور کے سرکی گیٹ کے علاقے میں ہوئی تھی اور یہیں پلے بڑھے تھے۔
تاریخ دانوں کے مطابق سرکی کا مطلب مشرق تھا۔ سرکی گیٹ پشاور کے گرد حفاظت کے لیے تعمیر قدیم فصیل کے سولہ دروازوں میں سے ایک تھا۔ یہ شہر کا انتہائی گنجان آباد اور مصروف علاقے ہے۔