کابل کے نزدیک بڑی تعداد میں تانبے کے ذخائر میں دریافت ہوئے ہیں لیکن ان کی کھوج اور کان کنی نے یہاں واقع بدھ دور کے آثار قدیمہ کے لیے خطرات لاحق کر دیے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس جگہ سے تانبے کی کان کنی چینی کمپنیوں کا ایک گروپ سرانجام دے رہا ہے۔
ان آثار قدیمہ کی دیکھ بھال پر معمور محکمے کے منتظم جلات سرخابی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’اگر تانبے کو نکالنے کا آغاز ہوا تو اس سے آثار قدیمہ کو نقصان ہو گا کیوں کہ کان کنی نازک کام نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’انہیں بم پھاڑ کر تانبے تک پہنچنا ہو گا۔ دھماکے بہت بھاری ہوتے ہیں جن سے بت ٹوٹ سکتے ہیں۔‘
آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے کے لیے فرانس کی ایک کمپنی کام کر رہی تھی لیکن طالبان حکومت کو درپیش اقتصادی مشکلات نے تانبے کی کان کنی کو ترجیح دلا دی ہے۔
2010 تک بدھ مت کے ان آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے کا پراجیکٹ دنیا کے چند بڑے منصوبوں میں سے ایک تھا۔
افغان وزارت کان کنی کے ترجمان عصمت اللہ برہان کا کہنا ہے کہ ’افغان انتطامیہ وزارت کان کنی اور وزارت اطلاعات اور ثقافت کی موجودہ پالیسی یہ ہے کہ تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ بدھ دور کی کوئی نشانی ضائع نہ جائے۔‘
اس جگہ سے دریافت ہونے والے زیادہ تر آثار دوسری اور نویں صدی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن مٹی کے کچھ ایسے برتن بھی ملے ہیں جن کی عمر بدھ دور سے بھی زیادہ ہے۔
جلات سرخابی کا کہنا ہے کہ ’ہمیں یونیسکو یا جو ممالک ہماری حمایت کر رہے ہیں ان کا تعاون چاہیے تاکہ ہم کچھ آثار قدیمہ کو یہاں سے منتقل کر سکیں۔‘