سوڈان کی فوج نے کہا ہے کہ وہ امریکہ، برطانیہ، چین اور فرانس کے سفارت کاروں کی فوجی ہوائی جہازوں کے ذریعے انخلا کی کوششوں کو مربوط کر رہی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سوڈانی فوج کا یہ بیان ہفتے کو اس وقت جاری کیا گیا جب ملک کے مرکزی ہوائی اڈے سمیت دارالحکومت میں شدید لڑائی جاری ہے۔
فوج نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ آرمی چیف جنرل عبدالفتاح برہان نے مختلف ممالک کے رہنماؤں سے بات کی، جنہوں نے سوڈان سے اپنے شہریوں اور سفارت کاروں کے محفوظ انخلا کی درخواست کی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق افریقی ملک گذشتہ ایک ہفتے سے خون ریز جنگ کا شکار ہے جہاں اب تک 400 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
کئی ممالک اپنے شہریوں کے انخلا کے لیے ناکام کوششیں کر چکے ہیں۔ انخلا کا کام بہت زیادہ خطرناک اس لیے بھی سمجھا جا رہا ہے کیوں کہ سوڈانی فوج اور اس کی حریف طاقت ور نیم فوجی فورس کے درمیان خرطوم اور اس کے آس پاس شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ یہ لڑائی اب رہائشی علاقوں تک پھیل چکی ہے۔
دارالحکومت کے مرکز کے قریب واقع مرکزی بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی شدید گولہ باری کا نشانہ بنا ہے۔
فوج اور ریپڈ سپورٹ فورس کے درمیان اس اہم سٹرٹیجک ہوائی اڈے پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں نے غیر ملکیوں کے انخلا کے منصوبوں کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
سوڈان کی فضائی حدود بند ہونے کے بعد کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو حکم دیا ہے کہ وہ محفوظ مقامات پر پناہ لیں۔
فوج کے سربراہ جنرل برہان نے کہا کہ سعودی عرب کے کچھ سفارت کاروں کو پہلے ہی بحیرہ احمر پر واقع ملک کی اہم بندرگاہ کے ذریعے سوڈان سے نکالا جا چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اردن کے سفارت کاروں کو بھی جلد ہی اسی طرح سے نکالا جائے گا۔
سعودی وزارت خارجہ نے ہفتے کو اعلان کیا کہ اس نے سعودی شہریوں کو سوڈان سے باہر نکالنے کا انتظام شروع کر دیا ہے۔ تاہم حکام نے ان منصوبوں کی وضاحت نہیں کی۔
پینٹاگون نے بھی رواں ہفتے کہا تھا کہ وہ سوڈان سے امریکی سفارت خانے کے عملے کے ممکنہ انخلا کی تیاری کے لیے خلیج عدن میں واقع بحریہ کے اڈے پر اضافی دستے اور ساز و سامان بھیج رہا ہے۔
تاہم جمعے کو امریکہ نے کہا کہ اس کے پاس سوڈان میں پھنسے ہوئے تقریباً 16 ہزار امریکی شہریوں کو حکومت کے تعاون سے نکالنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔
دوسری جانب عارضی جنگ بندی کے ٹوٹنے کے بعد سوڈان کے دارالحکومت میں لڑائی سنیچر کو دوسرے ہفتے میں داخل ہو گئی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حالیہ دنوں میں لرزا دینے والے زور دار دھماکوں کا سلسلہ تھم گیا تھا لیکن ہفتے کی صبح پھر سے شہر زور دار دھماکوں سے گونج اٹھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عینی شاہدین کے مطابق ہفتے کی صبح تک دارالحکومت کے کئی حصوں میں شدید گولہ باری، زور دار دھماکوں اور لڑاکا طیاروں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔
15 اپریل کو آرمی چیف عبدالفتاح البرہان کی وفادار فورسز اور ان کے نائب اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورس کے کمانڈر محمد حمدان دگلو کے درمیان اختلافات نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی تھی۔
دونوں سابق اتحادیوں نے 2021 کی بغاوت کے دوران اقتدار پر قبضہ کر لیا لیکن بعد میں اقتدار کی تقسیم پر دونوں جرنیلوں کی کشمکش نے ملک کو جنگ میں دھکیل دیا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتیرس اور امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے مطالبے کے بعد فوج نے جمعے کو عید الفطر کی تعطیل کے لیے ’تین دن کے لیے جنگ بندی‘ کا اعلان کیا تھا۔
جنرل دگلو نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ ’موجودہ بحران پر تبادلہ خیال کیا اور عارضی جنگ بندی، محفوظ راستوں اور انسانی امداد کی تنظیموں کے کارکنوں کی حفاظت پر اتفاق کیا۔
لیکن یہ جنگ بندی 24 گھنٹے بھی قائم نہیں رہی اور ہفتے کو دونوں جانب سے ایک دوسرے پر شدید گولہ باری کی گئی۔