25 اپریل کو منائے جانے والے ملیریا کے عالمی دن سے قبل صحت کے عالمی ادارے کے مطابق ملاوی اور پاکستان میں شدید نوعیت کے موسمی واقعات کی وجہ سے ملیریا کی انفیکشن اور اموات میں ’بہت تیزی سے‘ اضافہ ہوا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ پیٹر سینڈز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گذشتہ سال تباہ کن سیلاب کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ جانے کے بعد ملیریا کے کیس چار گنا بڑھ کر 16 لاکھ ہو گئے۔
ایڈز، تپ دق اور ملیریا پر قابو پانے کی کوشش کرنے والے گلوبل فنڈ کے سربراہ پیٹر سینڈز نے اے ایف پی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ملاوی میں مارچ میں سمندری طوفان ’فریڈی‘ کی وجہ سے چھ دن میں اتنی بارش ہوئی جو چھ ماہ میں ہونی چاہیے تھی جس کی وجہ سے وہاں بھی کیسوں میں اضافہ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جو کچھ ہم نے پاکستان اور ملاوی جیسی جگہوں پر دیکھا ہے وہ اس اثر کا حقیقی ثبوت ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ملیریا وبا پر پڑ رہا ہے۔
’لہٰذا آپ کے پاس موسم کے یہ انتہائی واقعات ہیں، چاہے پاکستان میں سیلاب ہو یا ملاوی میں طوفان ان کے نتیجے میں بہت پانی (جگہوں پر) کھڑا ہو جاتا ہے۔‘
25 اپریل کو عالمی یوم ملیریا سے ایک دن قبل ان کا کہنا تھا کہ ’اور ہم نے دونوں جگہوں پر ملیریا کی بیماری اور اموات میں بہت تیزی سے اضافہ دیکھا۔‘
سینڈز نے کہا کہ ورلڈ ملیریا ڈے مرض کے خاتمے میں ’ہم نے جو پیشرفت کی ہے عام طور پر اس کی خوشی منانے کا‘ موقع ہوتا ہے۔ لیکن اس سال یہ ’چوکس‘ کرنے کا موقعے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی موسمی آفات سے ظاہر ہوا کہ اب ان سے نجات حاصل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر ملیریا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بدتر ہونے جا رہا ہے، تو ہمیں اسے پیچھے دھکیلنے کے لیے اب کام کرنے کی ضرورت ہے جب ہم اسے ختم کر سکتے ہیں۔‘
دونوں ممالک پاکستان اور ملاوی میں سیلابی پانی کی سطح کم ہونے کے بعد پانی کے تالاب باقی رہ گئے جو ملیریا پھیلانے والے مچھروں کی افزائش کی مثالی جگہ بن گئے۔
سینڈز نے کہا کہ ملیریا کے خلاف جنگ میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے لیکن انہوں نے واضح کیا کہ اب بھی ہر منٹ میں ایک بچہ اس بیماری سے مر جاتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے 2021 میں کہا تھا کہ دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق 24 کروڑ 70 کیسز ہیں اور چھ لاکھ 19 ہزار اموات ملیریا کی وجہ سے ہوئیں۔
سائنسی پیش رفت کے تحت گذشتہ سال گھانا، کینیا اور ملاوی میں 10 لاکھ سے زیادہ بچوں کو دیو قامت برطانوی دوا ساز کمپنی جی ایس کے کی تیار کردہ آر ٹی ایس، ایس ویکسین دی گئی۔
ایک اور ویکسین آر 21/ میٹرکس۔ ایم، جسے برطانیہ کی آکسفرڈ یونیورسٹی نے تیار کیا، کو اس ماہ کے شروع میں گھانا میں استعمال کرنے کی منظوری دی گئی۔ پہلی بار اسے دنیا میں کہیں بھی ریگولیٹری کلیئرنس ملی ہے۔
لیکن فنڈ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سینڈز نے خبردار کیا کہ ویکسین کو ’سلور بُلٹ‘ یعنی جادوئی حل کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معمول کی تشخیص اور علاج کے بنیادی ڈھانچے کے مقابلے میں لاگت اور بڑے پیمانے پر استعمال میں دشواری کی وجہ سے ویکسینوں میں بیماری سے لڑنے کی صلاحیت کم رہی ہے۔
ملیریا کا سب سے زیادہ خطرہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں اور حاملہ خواتین کے لیے ہے جن کی موت بڑی حد تک بیماری کی تاخیر سے تشخیص اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔
سینڈز کے بقول: ’ساری بات ایسی خدمات کی ہے جو تشخیص اور علاج فراہم کر سکیں... اس کا مطلب ہے کہ آپ کو ہر گاؤں میں کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کی ضرورت ہے جن کے پاس حقیقت میں ٹیسٹ کرنے اور علاج کا سامان موجود ہو۔
’اور ہمیں یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس ملک کے صحت کے نظام کو اس قسم کے دھچکے برداشت کرنے کے لیے زیادہ پائیدار بنایا جائے (کیوں کہ) جو ہم دیکھتے ہیں وہ قیمتی طبی سامان، ادویات اور علاج کی سہولتوں کی بہت بڑی تباہی ہے۔‘
سینڈز کا کہنا تھا کہ وہ ممالک جنہیں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بہت زیادہ خطرے کا سامنا ہے وہاں’ملیریا کا مسئلہ بھی سنگین ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ مسائل تقریباً ساتھ ساتھ ہیں لہذا ہم بہت فکر مند ہیں کہ جن ممالک میں ملیریا زیادہ پایا جاتا ہے یہ وہ ممالک بھی ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والے انتہائی موسمی واقعات سے متاثر ہوتے ہیں۔‘