جنوبی وزیرستان کے تیارزہ خڑ پل گاؤں کی رہائشی راحیلہ 28 اگست 2020 کو اس وقت بارودی سرنگ پھٹنے کا شکار ہوئیں جب وہ اپنے بھائی اور کزن کے ساتھ اپنے گھر کے قریب کھیل رہی تھیں۔
اس واقعے کے حوالے سے راحیلہ بتاتی ہیں: ’اس دن بارش میں گھر کے پاس ہی ہم کھیل رہے تھے کہ ایک چیز دیکھی، جب ہم قریب گئے تو وہ کچھ الگ چیز لگی۔ جب اسے کھولنا چاہا تو ایک دم سے کچھ ہوا اور جب ہوش آیا تو میں ہسپتال میں تھی۔‘
اس واقعے میں راحیلہ کے بھائی ضیااللہ کی ایک آنکھ ضائع ہوئی جبکہ ان کی کزن شکیلہ کی ٹانگیں زخمی ہوئیں اور راحیلہ کے دونوں ہاتھ کٹ گئے۔
راحیلہ کے بڑے بھائی عطااللہ کہتے ہیں کہ واقعے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے بنیادی طبی امداد کے لیے بچوں کو وانا کے ڈی ایچ کیو اسپتال منتقل کیا وہاں سے وہ آرمی کے کیمپ میں واقع ہسپتال منتقل ہوئے۔
ابتدائی علاج ومعالجے کے بعد مزید بہتر علاج کے لیے وہ پشاور کے سی ایم ایچ ہسپتال گئے۔
عطااللہ کہتے ہیں کہ بنیادی طبی امداد تو ہوئی مگر مکمل علاج ممکن نہ ہو پایا واقعے کے بعد پشاور کے سی ایم ایچ اسپتال میں ہم سے کہا گیا تھا کہ راحیلہ کے لیے مصنوعی ہاتھ تیار کیے جائیں گے تاکہ وہ اپنی ضروریات مدد کے کرسکیں مگر تین سال گزرنے کو ہیں ابھی تک راحیلہ کے ہاتھ ویسے کے ویسے ہیں اور انہیں سکول جانے میں حتیٰ کہ اپنی ضروریات پوری کرنے میں بہت مشکلات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔
عطااللہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر کے ساتھ ہی ایف سی کی چیک پوسٹ ہے اور انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے آس پاس کے علاقے میں لینڈ مائنز بچھائی ہوئی ہیں۔
واقعے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ احتجاج بھی شروع کیا گیا تھا اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ گاؤں کے قریبی علاقوں سے بارودی سرنگوں کا صفایا کیا جائے اور واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں کا علاج حکومت کرے۔
عطااللہ کے مطابق اس وقت ان سے مطالبات کے ساتھ ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ وہ راحیلہ کو مکمل علاج کے ساتھ سرکاری نوکری اور گھر والوں کو معاوضہ بھی دیں گے۔
جنوبی وشمالی وزیرستان اوربشمول فاٹا و افغانستان سے منسلک سرحدی علاقوں میں بارودی سرنگیں پھٹنے کے واقعات میں 2012 کے بعد اس وقت اضافہ ہوا جب فوجی آپریشن ’راہ نجات‘ کی تکمیل ہوئی اور اس کے بعد علاقہ مکینوں نے دوبارہ اپنے آبائی علاقوں میں بسنا شروع کیا۔
2014 سے علاقے کے رہائشیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کے علاقوں سے بارودی سرنگوں کا خاتمہ اور یا پھر نشاندہی کی جائے تاکہ مزید نقصان سے بچا جاسکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور ان کی تنظیم کے مطابق: ’235 لینڈ مائنز کے واقعات میں 300 سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔‘
لینڈ مائنز میں اپنے دونوں ہاتھ کھونے والی راحیلہ کے بھائی عطااللہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے ساتھ کیے گئے وعدوں میں سے ابھی تک کوئی بھی وعدہ وفا نہیں ہوا ہے نہ ہی بارودی سرنگوں کا صفایا کیا گیا ہے۔‘
سماجی کارکن اورقومی اسمبلی میں جنوبی وزیرستان سے منتخب ہونے والے ایم این اے علی وزیر کہتے ہیں: ’بارہا کوشش کی ہے کہ حکومت کو باور کرائیں کہ ہمارے علاقوں میں بارودی سرنگوں کا ہونا بہت بڑا مسئلہ ہے مگر ابھی تک کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔
’ہم نے 2018 میں جب اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا اس وقت بھی پانچ نکات میں سے پہلا مطالبہ بارودی سرنگوں کی صفائی کا تھا مگر اب تک اس پر کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں اور حالیہ چند دنوں میں یہ مسئلہ پھر سر اٹھا رہا ہے تو اسی لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے اسے ایک بار پھر اپنے جلسوں میں اور قومی اسمبلی میں اٹھائیں گے۔‘
پاکستان کے سرحدی علاقوں میں سیکورٹی ادارے غیر قانونی آمد و رفت اور حفاظت کے لیے بارودی سرنگیں استعمال کرتے ہیں۔ حادثات کے باعث اب بھی باردوی سرنگوں کی صفائی کا کام جاری ہے مگر کچھ سرنگیں قدرتی طور پر جیسے کہ سیلاب اور زلزلوں کی وجہ سے چھپ گئی ہیں جس سے وقتاً فوقتاً لوگ اور مال مویشی متاثر ہو رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ضلع جنوبی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر ناصر خان اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شبیر حسین سے جب بات کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کی طرف سے کوئی جواب نہ مل سکا۔
جنیوا انٹرنیشنل سینٹر فار ہیومینٹیرین ڈیمائننگ نے اپنی 2017 میں جاری ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں پر زیادہ لینڈ مائنز یا بارودی سرنگیں ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں لینڈ مائنز سے متاثرہ 28 فیصد افراد کا تعلق پاکستان سے ہے۔