خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کی 13 سالہ حمیدہ بی بی چار سال قبل معمول کے مطابق گھر کے قریب ایک پہاڑی پر بکریاں چرانے گئیں، مگر انہیں نہیں معلوم تھا کہ اس دن ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل جائے گی۔
جنوبی وزیرستان کے سپنکئی علاقے سے تعلق رکھنے والی حمیدہ آج ایک ایسے دھرنے میں شریک ہیں، جس کا مقصد علاقے کو ان بارودی سرنگوں سے پاک کرنا ہے، جو اب تک ہزاروں کی جان لے چکی ہیں اور ان کو ایک ٹانگ سے معذور کر دیا۔
وزیرستان میں گذشتہ 12 دنوں سے حمیدہ، ان کے اہل خانہ، بارودی سرنگوں کے متاثرین اور سینکڑوں دیگر مظاہرین اس دھرنے میں شامل ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہیں مانے گئے تو وہ اسلام آباد تک لانگ مارچ کریں گے۔
دھرنے کے منتظمین میں شامل شیرزادہ کے مطابق حمیدہ کے ساتھ حادثہ 2017 میں پیش آیا۔ وہ پہاڑی پر بکریاں چرا رہی تھیں کہ ان کا پاؤں ایک بارودی سرنگ پر آ گیا جو پھٹ گئی۔
شیرزادہ کے بقول حمیدہ کو ضلع ٹانک کے ہسپتال اور بعد میں پشاور کے سی ایم ایچ منتقل کیا گیا جہاں ان کا دایاں پاؤں کاٹنا پڑا۔
شیرزادہ کہتے ہیں: ’یہ صرف حمیدہ کی کہانی نہیں۔ وزیرستان کے سینکڑوں بچے اور بچیاں بارودی سرنگوں کی وجہ سے زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئے ہیں اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بارودی سرنگوں سے صرف عام لوگ نہیں بلکہ سکیورٹی فورسز کے جوان بھی متاثر ہوئے ہیں لیکن ان کی صفائی پر کام تیزی سے نہیں ہو رہا۔
انہوں نے بتایا کہ بارودی سرنگوں کی صفائی کا کام 2012 میں شروع ہوا تھا لیکن ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔
دھرنے میں شامل افراد کے بنیادی مطالبے یہ ہیں کہ بارودی سرنگوں کو صاف کیا جائے اور ساتھ میں متاثرین کو دہشت گردی میں ہلاک ہونے افراد کے برابر معاوضہ دیا جائے۔
شیرزادہ نے کہا: ’جو لوگ بارودی سرنگ کی وجہ سے ہاتھ اور پاؤں سے معذور ہوگئے، ان کو بہتر زندگی دینے کے لیے حکومتی سطح پر معاوضہ اور ساتھ میں سرکاری نوکری بھی دینا چاہیے تاکہ اس سے وہ گھر کا خرچہ چلا سکیں۔‘
شیرزادہ نے بتایا کہ بعض علاقوں، جیسے کہ سپینکئی کیڈٹ کالج کی زمین پر بارودی سرنگوں کو بہت جلدی صاف کیا گیا تھا، اور دھرنے کے شرکا یہی چاہتے ہیں باقی علاقوں کو جتنا جلدی ہو سکے صاف کیا جائے تاکہ مزید بچے معذور نہ ہوں۔
مظاہرین میں سے کچھ کا دعویٰ تھا کہ یہ بارودی سرنگیں پاکستان فوج نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کے دوران بچھائیں تھیں تاکہ طالبان کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔ تاہم پاکستان فوج بارہا اس دعوے کی تردید کر چکی ہے۔
سکیورٹی فورسز کا موقف
پاکستان فوج کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ بارودی سرنگیں عسکریت پسندوں نے بچھائی، جن کا شکار عام شہری ہی نہیں بلکہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ہوئے۔
ایک سکیورٹی ذرائع نے کہا: ’صرف عام لوگ نہیں، بلکہ سکیورٹی فورسز کے جوان بھی بارودی سرنگوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
’ہمارے درجنوں اہلکار لینڈ مائن پر پاؤں رکھنے کی وجہ سے متاثر ہوئے جس میں سے بعض ساری زندگی کے لیے معذور ہوگئے۔‘
ان کے مطابق پاکستان فوج نے وزیرستان کو بارودی سرنگوں سے صاف کرنے کے لیے ایک سپیشل یونٹ بنایا ہے اور ساتھ میں عوام کی آگاہی کے لیے ان جگہوں پر بینرز آویزاں کیے ہے تاکہ جہاں پر لیںڈ مائنز کا خطرہ ہو عوام اس جگہ سے دور رہیں۔
تاہم ایک سکیورٹی ذرائع کے مطابق بارودی سرنگوں کو اتنی آسانی سے صاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بارش کی وجہ سے کچھ مائنز ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوگئی ہیں اور ان کو ڈھونڈنا بہت مشکل اور خطرے سے بھرا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان فوج کی ڈی مائننگ ٹیم اپنی حتٰی الوسع کوشش رہی ہے کہ پورے علاقے کو صاف کیا جا سکے۔
رواں سال جون میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی وزیرستان میں بچھائی گئی بارودی سرنگوں کا مسئلہ زیر بحث رہا۔
جمعیت علمائے اسلام کے جنوبی وزیرستان سے رکن اسمبلی حافظ حسام الدین نے یہ نکتہ اسمبلی میں اٹھایا تھا جس پر کافی بحث ہوئی۔
انہوں نے اس وقت اسمبلی میں سوال اٹھایا تھا کہ وزیرستان کے بچے کب تک بارودی سرنگوں کے ہاتھوں معذور اور مارے جائیں گے۔
رکن اسمبلی نے کہا تھا کہ اب تک بارودی سرنگوں کی وجہ سے 300 بچے متاثر ہوئے ہیں اور حکومت کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔
اسی نکتے پر ڈپٹی سپیکر محمود خان نے کہا تھا کہ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کو وزیر اعلیٰ اور گورنر کے ساتھ ملاقات کرنی چاہیے تاکہ اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔
اسی معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کے وزیر محنت شوکت یوسفزئی نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے بعد بارودی سرنگوں کی صفائی حکومت کے لیے ایک بڑا چلینج ہے اور زیادہ تر علاقوں کو لینڈ مائنز سے صاف کیا گیا ہے جبکہ مزید صفائی کا عمل جاری ہے۔
بارودی سرنگوں کے حادثات
قبائلی اضلاع اور خصوصاً شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بارودی سرنگوں کا مسئلہ نیا نہیں بلکہ رپورٹس کے مطابق سوویت جنگ کے دوران بھی اس علاقے میں یہ بچھائی گئی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دا نیو ہیومینی ٹیرین نامی ادارے کی 2008 کی ایک رپورٹ کے مطابق 2008 میں بارودی سرنگوں کے دھماکوں کے 50 واقعات رپورٹ سامنے آئے تھے۔
اسی رپورٹ میں لینڈ مائن اینڈ کلسٹر میونیشن مانیٹر نامی ادارے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ 2002 سے 2006 تک پاکستان میں بارودی سرنگوں کے دھماکوں کے 1144 واقعات پیش آئے، جن میں 440 ہلاک اور 704 زخمی ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق باردوی سرنگوں کو عسکریت پسند تنظیموں اور حکومتی فورسز نے ایک دوسرے کے خلاف بچھایا اور زیادہ تر ان علاقوں میں جہاں شدت پسندی عروج پر تھی۔
پاکستان دنیا کے ان 37 ممالک میں شامل ہے جنہوں نے ابھی تک بارودی سرنگوں کے استعمال کو ختم کرنے کے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔
بارودی سرنگوں سے متعلق معاملات پر نظر رکھنے والے ادارے لینڈ مائن اینڈ کلسٹر میونیشن مانیٹر کی 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے بھارت کے ساتھ سرحد پر 2002 کے بعد بارودی سرنگیں بچھانے کے کوئی رپورٹ نہیں ملی اور سکیورٹی فورسز نے بارہا کہا ہے کہ وہ اندرونی سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے بارودی سرنگوں کا استعمال نہیں کرتے۔